Language:

ڈاکٹرعبدالسلام اور کہوٹہ دشمنی(تحریر :زاہد ملک

یہ اگست1958ء کی بات ہے، اس کے دو ماہ بعد اکتوبر1958ء میں فوجی انقلاب آگیا، جس کی باگ ڈور ایوب خان کے ہاتھ میں تھی۔ وہ نئے عزم اور تازہ ولولوں کے ساتھ آئے تھے۔ ان کی کابینہ میں پہلی ایندھن، بجلی اورقدرتی وسائل کی الگ وزرات قائم کی گئی، جس کی ذمہ داریاں نوجوان بھٹو کو تفویض کی گئی تھیں۔ بھٹو مرحوم بھی پرجوش تھے۔ ان کے مطابق اس وقت کمیشن کی حیثیت ’’ایک دفتر کے بورڈ سے زیادہ نہ تھی‘‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کمیشن پاکستانی سائنسدانوں کی ایک معقول تعداد کو بیرون ملک ریڈیوآئی سوٹوپس اور ری ایکٹر ٹیکنالوجی میں خصوصی تربیت دلوانے میں کامیاب رہا تھا۔ایٹمی کمیشن کو از سر نو معظم کیا گیا اور ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی 1960ء میں اس کے نئے چیئرمین مقررہ ہوگئے۔ ان دنوں ڈاکٹرعبدالسلام ایوب خاں کے سائنسی مشیر تھے۔ ڈاکٹرعثمانی کا نام انہی نے تجویز کیا تھا۔ ڈاکٹر عثمانی ایٹمی طبیعات کے آدمی تھے۔ انہوں نے کمیشن کو پہلی بار ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی۔بھٹومرحوم کی انہیں مکمل تائید حاصل تھی۔ پہلے مرحلے میں اندرون ملک تحقیقاتی، ترقیاتی اور تربیتی سہولتوں کے قیام پر توجہ دی گئی ، جس کے نتیجہ میں ایٹمی تحقیقات کاپہلا قومی ادارہ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیو کلیئر سائنس اور ٹیکنالوجی (Pinstech) کے نام سے قائم کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی۔ جس کے تحت ایٹمی توانائی کے تمام شعبوں کی تجربہ گاہیں ایک ہی مقام پر قائم کرنامطلوب تھا۔ چنانچہ اسلام آباد کے قریب نیلور میں اس کی تعمیر کا آغاز1961ء میں ہوا۔ اس کے لئے عالمی شہرت یافتہ آرکیٹیکٹ ایڈورڈ ڈورل سٹون (Edward Durrel Stone) کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس قومی ادارے کے لئے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے معاہدہ 1960ء میں ہی ہوچکا تھا ۔امریکی ساخت کا یہ پانچ میگا واٹ کا ’’سوئمنگ پول‘‘ ری ایکٹر امریکہ نے ’’ایٹم برائے امن‘‘ پروگرام کے تحت مہیا کیا تھا۔ اس ری ایکٹر نے 31دسمبر 1965ء کو کام شروع کردیا۔

یہ وہ دور تھا جب بھارت پاکستان سے اس میدان میں بہت آگے نکل چکا تھا، یعنی 1956ء میں جب پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کی بنیاد رکھی جارہی تھی، بھارت کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر سائرس کام شروع کرچکا تھا۔ تاہم پاکستانی سائنسدان اور انجینئر ابتدائی مرحلے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواگئے۔ پاکستان کے اس پہلے ری ایکٹر کی ڈیزائننگ، تنصیب اور چلانے کا تمام کام پاکستانی سائنسدانوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم نے بغیر کسی بیرونی مدد کے انجام دیا اور اس ٹیم میں نمایاں نام ڈاکٹر سعید زاہد کا ہے، جو بعد میں ڈاکٹر عبدالسلام اور منیر احمد کی سازشوں کا شکار ہوگئے اور ایک اطلاع کے مطابق یہ یگانہ روزگار سائنسدان ایٹمی ری ایکٹرز کے بارے میں جس کی صلاحیتوں کا اعتراف امریکہ کے چوٹی کے سائنسدانوں نے کیا تھا، آج اپنوں کے ہاتھوں ہی اسلام آباد میں بے یارومددگار ہے۔

بھٹو مرحوم کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ ’’پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا ان کا جنون اور خواب تو بہت قدیم تھا۔ انہوں نے 1965ء میں جب ایوب کابینہ میں وزیرِ خارجہ تھے ، نہایت جذباتی انداز میں کہاتھا:  اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو چاہے ہمیں گھاس اور پتے کھانے پڑیں یا ہم بھوکے رہے ، ہم بھی  ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔‘‘

اس وقت بعض حلقوں بالخصوص بھارت نے اسے ان کی ایک تعلی قرار دیا تھا۔ بالکل اسی طرح کی تعلی یا نعرہ جیسا بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کے لئے لگایا تھا لیکن ان کی کتاب (Myth of Independence)سے جو انہوں نے 1967ء میں مکمل کی تھی اور 1969ء میں شائع ہوئی ، کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیںان کے ذرائع نے بھارت کے ایٹمی عزائم سے باخبر کردیا تھا۔ اس لئے انہوں نے یہ بات یونہی نہیں کی تھی، اپنی اس کتاب میں انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ بھارت بالآخر ایٹمی دھماکہ کرے گا۔ اگر پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام آگے نہ بڑھایا اور اسے اس نہج پر ترتیب نہ دیا تو بھارت اپنی ایٹمی قوت کی آڑ میں نہ صرف پاکستان کو بلیک میل کرے گا، بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اس کی پیش رفت کی راہ میں حائل ہوگا اور غالباً ان کا یہی احساس تھا کہ جس کے باعث انہوں نے ایوب خان کو بھی ری پروسیسنگ پلانٹ لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس وقت وہ کامیاب نہ ہوسکے تھے مگر جب 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ملک کی باگ ڈور پوری طرح ان کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اپنے اس دیرینہ خواب کی تعبیر پانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے برسراقتدار آنے کے صرف ایک ماہ بعد 20جنوری1972ء کو پاکستان کے اندرون وبیرون ملک سے چیدہ سائنسدانوں کو ملتان میں جمع کیا اور ان کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو جلد از جلدایٹمی قوت بنا دینا چاہتے ہیں۔ ’’دی اسلامک بم‘‘ کے مصنفین سٹیوویز مین (Steve Weisman) اور ہربرٹ کروزنی (Herbert Kroseny) نے بھٹو کے پریس سیکرٹری خالد حسن کو نشے میں دھت کر کے اس سے جو کچھ اگلوایا، اس کے مطابق بھٹو اس کانفرنس میں بہت جذباتی ہورہے تھے اور انہوں نے جب ایٹم بم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عشرت عثمانی اور کئی دوسرے سینئر سائنسدانوں نے نہ صرف اس سے اختلاف کیا بلکہ اسے ناممکن قرار دیا۔

واقفان حال کا کہناہے کہ ری پروسیسنگ پلانٹ کا آئیڈیا بھٹو مرحوم کے ذہن میں ان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اور منیر احمد خان نے ڈالا تھااور ڈاکٹر سلام کے بارے میں یہ بات کھلا راز ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے خلاف ہیں اور ملتان کانفرنس میں بھٹوسے اسی بات پر بگڑ گئے تھے۔ اسے جو ’’نوبل پرائز‘‘ ملاہے، اس کی حقیقت اس امر سے آشکار ہوجاتی ہے کہ اسے سیاسی مقصد کے لئے یہودیوں نے آئن سٹائن کی صد سالہ برسی پر اس کے لئے منتخب کیا تھا ۔پھر جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں ۔ لیور پلانٹ کی ڈیزائننگ میں اہم کردار ادا کرنے والے زاہد سعید کو گوشہ گمنامی میں دھکیلنے میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر سلام نے ادا کیا۔ اسی طرح پاکستان کے ممتاز جیالوجسٹ شیرخاں کو بھی منیر احمد کے ہاتھوں اس لئے رسوا اور ملازمت سے نکلوایا گیا کہ اس نے ایوب خان کے آخری دور میں، اس وقت کہ جب عشرت عثمانی یہ رپورٹ دے چکے تھے کہ پاکستان میں یورینم نہیں ہے ، گلگت میں یورینیم کی موجودگی ثابت کردی تھی اور صدر ایوب کی ہدایت پر پاکستان اٹامک کمیشن کے ڈاکٹر غنی نے گلگت جا کر ان کی کوششوں کا جائزہ لینے کے بعد صدر کو جو رپورٹ دی تھی۔ اس میں شیرخاں کی تائید کردی تھی۔ بعد میں صدر ایوب نے فرانس کے ماہرین سے بھی تصدیق کرائی اور یہ بات بھی قومی پریس میں آچکی ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام جب بھی پاکستان آتے ہیں ، ایٹمی توانائی کمیشن کے کراچی گیسٹ ہائوس میں ٹھہرتے، منیر احمد سے باتیں کرتے اور بھارت کے لئے رخت سفر باندھ لیتے ہیں تاکہ وہاں اپنے آقائوں کو خوش کرسکے۔

ایٹمی توانائی کمیشن میں ان کے کئی اور نیازمند بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر سلام سے تعلق کے علاوہ منیر احمد نے اُردو ڈائجسٹ سے اپنے اسی انٹرویو میں ڈاکٹر کسنجر کی شاگردی اور نیازمندی پر بھی اظہار افتخار کیا ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ بھٹو کو ری پروسیسنگ پلانٹ کی راہ پر ڈالنے کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مفلوج کرنے کے لئے ’’عالمی طاقتوں‘‘ کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں، تویہ بے جانہ ہوگا ۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بھٹو مرحوم کے غچہ دینے میں پوری طرح کامیاب رہے۔

            مولانا کوثر نیازی نے لکھا ہے کہ ’’ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری کا آئیڈیا مسٹر بھٹو کے ذہن میں ان کے سائنسی امور کے مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اور ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین مسٹر منیر احمد خاںنے ڈالا تھا اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ملتان کانفرنس میں ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی مخالفت کی تھی اور وہ اس معاملہ میں مسٹر بھٹو کے اضطراب سے اس قدر پریشان ہوئے تھے کہ ناراض ہو کر لندن چلے گئے تھے اور بھٹو کو بقول خالد حسن، اس خوف کے پیش نظر کہ ڈاکٹر عبدالسلام کہیں سارے راز ہی بے نقاب نہ کردیں، ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک قریبی دوست اور عزیز شاگرد کو ان کے پیچھے بھیجنا پڑا تھا کہ وہ انہیں یقین دلائے کہ ملتان کانفرنس محض ایک سیاسی ڈرامہ تھا اور مسٹر بھٹو کو اس معاملے میں پاکستان کے محدودوسائل اور بے بضاعتی کا پورا احساس ہے۔ ایسے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا آئیڈیا دینے والوں نے مسٹر بھٹو سے فریب کیا تھا، وہ بالکل درست کہتے ہیں اور اس سے مسٹر بھٹو کے ان مشیروں کی پاکستان دوستی بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔‘‘

یہ واقعہ نیاز اے نائیک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھے ہوئے سنایاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا۔

’’اپنے ایک امریکی دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کررہا تھا کہ دورانِ گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگراموں کا ذکر شروع کیا۔ اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فوراً بندنہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لئے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا ’’ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین نتائج کے بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلااس میں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا م ماڈل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے جو اسی اجلاس میںموجود تھا کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ کہہ کے سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے اندازمیں کہا کہ آئیے میرے ساتھ بازووالے کمرے میں۔ میں آپ کو بتائوں آپ کا اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جارہا ہے۔ اور وہاں جاکریہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہوگئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔

ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا ’’یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟ میںنے کہا میں فنی اور تکنیکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہوگا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سرچکرارہا تھاکہ یہ کیا معاملہ ہے؟

جب ہم کاریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میںداخل ہورہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے اسلامی بم کاماڈل پڑا ہوا تھا۔ میںنے اپنے دل سے کہا اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘