Language:

تمام امت سے قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل

جو شخص ختم نبوت کا انکار یا تاویل کرے وہ یقینا کافر اور دائرہ اسلام سے خا رج ہے۔برصغیر میں انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی سے نبوت کا دعویٰ کروایا ۔ اس نے جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے بتدریج مبلغ اسلام ، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی نبی، مستقل نبی، رسول ،انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا۔علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ و بے باک طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ سب سے پہلے دیا تھااور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتویٰ کی تصدیق و توثیق کی۔جماعت دیو بند کی طرف سے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے مرزا قادیانی کو مرتد ، زندیق اور اسلام سے خارج قرار دیا۔ حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے مولانا غلام دستگیر قصوری کے استفتاء پر 1302ھ میں مرزا کو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر علمائے حرمین سے اس کی تصدیق کرائی۔پھر اس کے بعد 1331 ھ میں مولانا محمد سہول رحمۃ اﷲ علیہ مفتی دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک مفصل فتویٰ میں لکھا کہ مرزا غلام احمد او راس کے جملہ متبعین درجہ بدرجہ مرتد ،زندیق ، ملحد ، کافر اور فرقہ ضالہ میں یقینا داخل ہیں‘‘۔اس فتویٰ پر حضرت شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ اور دوسرے جید مشاہیر علماء کے دستخط ہیں ۔ اہلحدیث مکتبہ فکر سے مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا ابراہیم سیا لکوٹی رحمۃ اﷲ علیہ اور مولانا دائود غزنوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس فتنہ کا بھر پور تعا قب کیا ۔شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے 1343ھ میں ایک علمی رسالہ’’ الشہاب‘‘ تصنیف فرمایا ۔  اس رسالہ میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے ختم نبوت کے قطعی عقیدہ کی مرزا قادیانی کی طرف سے بے جا اور باطل تا ویلات و تحریفات کا ذکر کر کے قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی سے مرزا قادیانی کو ملحد ، مرتد و زندیق ثابت کیا اور’’ الشہاب‘‘ کے صفحہ 10 پر مرزا قادیانی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ’’اسلام کے قطعی عقیدہ کو تسلیم نہ کر نے کی وجہ سے مرتد اور زندیق ہے اور جو جماعت ان تصریحات پر مطلع ہو کر ان کو صادق سمجھتی رہے اور ان کی حمایت میں لڑتی رہے وہ بھی یقینا مرتد اور زندیق ہے ۔ خوا ہ وہ قادیان میں سکونت رکھتی ہو یا لاہور میں ! جب تک وہ ان تصریحات کے با طل ہونے کا اعلان نہ کر ے گی خدا کے عذاب سے خلاص پانے کی اس کے لئے کو ئی سبیل نہیں ‘‘۔ شیخ السلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک مرزائیوں کی دونوں پارٹیاں قادیانی اور لاہوری مرتد اور زندیق ہیں ۔ قطب عالم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلیفہ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃاللہ علیہ کو اس فتنہ کے خلاف کام کرنے کی تلقین فرمائی۔حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کے دوسرے خلفاء حضرت مولانا احمد حسن امروہی رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت مولانا انوا ر اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اﷲ علیہ وغیرہ بھی اس فتنہ کی سر کو بی میں پوری طرح سر گرم رہے ۔

 حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا رشید احمدگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ، حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ خانقاہ سراجیہ، مولانا تاج محمود امروٹی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا غلام محمد دین پوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانارسول خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ،پیر صبغت اللہ شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ پیر آف پگاڑہ شریف، حضرت حافظ پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین تکوینی طور پر اس محاذ کے انچار ج تھے۔

ردقادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اورجانفشانی سے کام کیا ان میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ، حصرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ،پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ،علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد دائود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ، حافظ کفایت حسین رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت پیر کرم علی شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

1970ء کے الیکشن میں چند سیٹوں پر مرزائی منتخب ہوگئے۔ اقتدار کے نشہ اور ایک سیاسی جماعت سے سیاسی وابستگی نے انہیں دیوانہ کردیا۔ وہ حالات کو اپنے لیے سازگار پا کر انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کی سکیمیں بنانے لگے۔ قادیانی جرنیلوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ اس نشہ میں دھت ہو کر انہوں نے 29مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر کرنے والے ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ملک گیر تحریک چلی۔حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر تھے۔ ان کی دعوت پر امت کے تمام طبقات جمع ہوئے۔ آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان تشکیل پائی۔ جس کے سربراہ حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ منتخب ہوئے ۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نصیبی کہ اس وقت قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن متحد تھی۔ چنانچہ پوری کی پوری اپوزیشن مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان میں شریک ہوگئی۔

 متفقہ طور پر اپوزیشن کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزائیوں کے خلاف قرار داد پیش کی اور برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی یعنی حکومت کی طرف سے دوسری قرار داد جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی جو ان دنوں وزیر قانون تھے، قومی اسمبلی میں مرزائیت پربحث شرو ع ہوگئی۔ پورے ملک میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، نوابزادہ نصراللہ خان رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ فضل رسول حیدر، مولانا صاحبزادہ افتخار الحسن، سید مظفر علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا علی غضنفر کراروی، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا محمد شاہ امروٹی رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ چاروں صوبوں کے تمام مکاتب فکر نے تحریک کے الائو کو ایندھن مہیا کیا۔ اخبارات و رسائل نے تحریک کی آواز کوملک گیر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا دبائو بڑھتا گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں قادیانی و لاہوری گروپوں کے سربراہوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ ان کا جواب اور امت مسلمہ کا موقف مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سمیع الحق اور مولاناسید انور حسین نفیس رقم رحمۃ اﷲ علیہ نے مرتب کیا۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے چودھری ظہور الٰہی کی تجویز اور دیگر تمام حضرات کی تائید پر قرعہ فال مولانا مفتی محمود رحمۃا للہ علیہ کے نام نکلا۔ جس وقت انہوں نے یہ محضر نامہ پڑھا، قادیانیت کی حقیقت کھل کراسمبلی کے ارکان کے سامنے آگئی۔ مرزائیت پر اوس پڑگئی۔ نوے دن کی شب و روز مسلسل محنت ،کاوش اور بھر پور تحریک کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے عہد اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرار داد کومنظور کیا اور مرزائی آئینی طور غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔

 قادیانی عام کافر نہیں بلکہ کافروں کی قسم مرتد و زندیق سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہ اپنے دین کفرکو اسلام کا نام دیتے ہیں اور دین اسلام کو کفر کہتے ہیں اور یہ جرم ہر قادیانی میں پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ اسلام کو چھوڑ کر قادیانی بنا ہو یا پیدائشی قادیانی ہو۔ عام کافروں کے ساتھ معاملات جائز ہیں جب وہ مسلمان کا روپ نہ دھاریں اور مسلمان کی نشانیوں (شعائر اسلامی)کو استعمال کر کے مسلمانوں کو دھوکہ نہ دیں۔جبکہ قادیانی مسلمانوں کا روپ دھار کر اور انکے شعائر (نشانیوں)کو استعمال کر کے تعلقات کے جھانسہ میں سادہ لوح مسلمانوںکے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔لہذٰا ان کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات حرام ہیں۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے قادیانیوں سے سوشل بائیکاٹ کی اپیل کی۔ پورے ملک کے اسلامیان وطن نے قادیانیوں سے تا ریخ ساز سوشل بائیکاٹ کیا ۔ چندروشن خیال نادان اس پر چیں بچیں ہوئے ۔اس زمانے میںعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت علامہ مولانا سید محمد یو سف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ نے قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ پر ایک استفتاء مرتب فرمایا اور اس کا جواب ارباب فتویٰ سے طلب فرمایا ۔ تمام مسالک کے علماء کرام نے قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے لیے فتاویٰ جات تحریر کیے۔مثلاً پاکستان کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ نے 28 اگست 1974 ء کو فتویٰ مرتب کیا ۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے  اس زمانہ میں اس  فتویٰ کو ہزاروں کی تعداد میںتقسیم کروایا۔ اسی طرح جامعہ امینیہ رضویہ فیصل آباد کے حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب نے فتاو یٰ مرتب کیا ۔

قادیانی آئین پاکستان کی روسے خارج از اسلام ہیں مگر1974 ء میں غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کے با وجود قادیانیوں نے آئین پاکستان سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ قادیانیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دینا شروع کر دیاکہ ہماری نماز ، روزہ ،عبادات اوردیگر شعائروغیرہ سب مسلمانوں کی طرح ہیں لہذا ہم پکے مسلمان ہیں ۔ مزید یہ کہ قادیانی کلمہ طیبہ کا بیج لگا کر کھلے عام شعائر اسلامی کا اظہار کرنے لگے قادیانی اپنی ارتدادی سرگرمیاں تیز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے پہلے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کے ایمان برباد کرنے لگ گئے ۔ 26 اپریل 1984 ء کو حکومت پاکستا ن نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت قادیانیوں کو شعائر اسلام استعمال کرنے، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور قادیانیت کی تبلیغ کرنے سے روک دیا ۔ اس آرڈیننس کے ذریعہ تعزیرات پاکستان میں دو نئی دفعات 298/B اور 298/C کا اضافہ کیا گیا ۔ مگر قادیانیوں نے اس آرڈیننس کی بھی کھلے عام خلاف ورزیا ں شروع کر دیں ۔ قادیانی اسلام کے غدار اور باغی تو تھے ہی ، آئین پاکستان میں ترمیم کے بعد قادیانیوں کا اپنے آپ کو’’ مسلمان‘‘ قرار دینا اور شعائر اسلامی کا استعمال کرنے سے یہ آئین اور قانون پاکستان کے بھی باغی اور غدار بن گئے۔

دور حاضر میں چند’’روشن خیال ‘‘نادان قادیانیوں کی اگلی نسلوں کو عام کافر قرار دے کرقادیانیوں سے معاملات اور تعلقات استوار کر رہے ہیں ۔ان حالات میں ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے کہ قادیانی کافروں کی عام قسم نہیںبلکہ وہ کافروں کی بد ترین قسم سے تعلق رکھتے ہیں جنہیںزندیق کہا جاتا ہے اور ان سے خریدوفروخت ،تجارت، لین دین ،سلام و کلام ، ملنا جلنا، کھانا پینا ، شادی و غمی میں شرکت ، جنازہ میں شرکت ،تعزیت، عیادت،ان کے ساتھ تعاون یاملازمت سب شریعت اسلامیہ میںممنوع اور حرام ہیں۔قادیانیوں/ مرزائیوں کے کافر ، مرتد اور زندیق ہونے میں سب علماء متفق ہیں ۔ قادیانیوں / مرزائیوں کا حکم عام کافر وں سے علیحدہ ہے۔ حکومت کے لئے یہ حکم ہے کہ ان زندیقوں پر عادل گواہوں کی شہادت قائم ہونے پر شرعی سزا یعنی سزائے موت نافذ کرے ۔ علماء کے لئے حکم ہے کہ وہ قادیانیوں/ مرزائیوں کے مرتد اور زندیق ہونے کا حکم امت پر واضح کریں ۔ اور عوام کے لئے حکم ہے کہ ان کا مکمل بائیکاٹ کریں یعنی ملنا جلنا، خرید و فروخت ، نشست برخاست، کھاناپینا،سلام کلام ،ملازمت ،دوستی وغیرہ سب مکمل طور پر ختم کردیں ۔

مرکز سراجیہ کے ذمہ داران نے شیخ المشائخ امام وقت حضرت مولاناخواجہ خان محمدرحمۃ اﷲ علیہ کی سرپرستی، راہنمائی،اور مشاورت سے موجودہ دور کے تمام مکا تب فکر کے علماء کرام ، مفتیان ،مشائخ عظام، ممتاز اسکالر بڑے بڑے مدارس و جامعات اور مذہبی جماعتوں کے قائدین سے فتاویٰ جات اور تحریریں اکٹھی کیں ۔تمام مکتبہ فکر کے رہنمائوں نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی عدل و انصا ف کے عین مطابق قرار دیا۔ قادیانیوں سے کسی بھی قسم کے تعلقات اور معاملات کو حرام اور انکے مکمل بائیکاٹ کو فرض قرار دیا ۔ الحمدﷲ مرکز سراجیہ اسے اب جامع دستا ویز کی شکل میں شائع کرچکا ہے جسے آپ www.wndofprophethood.com پہ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ دعا ہے اﷲ پاک اس دستاویز کو نافع بنائے اور قبول فر مائے ۔آمین۔

قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ ا ن کو تو بہ کرانے میں بہت بڑا علاج اور قادیانیوں کی ہدایت کا بہت بڑا واسطہ ہے ۔ قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ ایمان کی گواہی ہے، نصرت دین ہے، اﷲ تعالیٰ کی رضامندی کا ذریعہ ہے، رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کا واسطہ اور سرمایہ ہے ۔ ان سے اقتصادی ، معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات یا کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا اس فتنہ مرزائیہ کی تقویت اور پھیلنے میں معاونت کا ذریعہ بنے گا جسکا وبال عظیم ہونا ہر باشعور انسان پر مخفی نہیں۔ ایمانی غیرت کا تقاضا اور ایمان کی نشانی کفر اور کفار سے ہمہ قسم کی بیزاری، نفرت اور بائیکاٹ ہی میں ہے ۔قادیانیوں ،مرزائیوں کا کفر ایک الگ نوعیت کا کفر اور یہ فتنہ ایک عظیم فتنہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فر مائیں تاکہ ایمان بچا کر دنیا سے رخصت ہوں اور اس فر قہ ضالہ کو بھی مولائے پاک تائب ہونے کی توفیق عطا فر مائیں ۔ہماری تمام امت سے اپیل ہے کہ آپ قادیانیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور ان سے معاملات اور تعلقات ختم کر کے شفاعت مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مستحق بنیں ۔ اﷲ ہم سب کوشفاعت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہرہ مندفرمائیں۔آمین

                                                                                                                              مولانا خواجہ رشید احمد صاحب      مدیر مرکز سراجیہ