Language:

جھوٹی پیش گوئیاں آٹھویں پیش گوئی چاند و سورج گرہن

آنجہانی مرزا قادیانی ذخیرہ احادیث میں سے ضعیف سے ضعیف، من گھڑت اور موضوع روایت کے بھی مزید من گھڑت معنی کر کے  اپنے جھوٹے دعووں کی دلیل بنا لیتا۔ چنانچہ رمضان المبارک میں چاند گرہن (خسوف) اور سورج گرہن (کسوف) کی لغو اور موضوع روایت اس کی روشن مثال ہے۔ایک طرف تو مرزا قادیانی کہتا ہے :

(1)        ’’میرا عقیدہ اور میری جماعت کا عقیدہ ہے کہ اس قسم کی تمام حدیثیں جو مہدی کے آنے کے بارے میں ہیں، ہرگز قابل وثوق اور قابل اعتبار نہیں ہیں۔‘‘                                                        (حقیقتہ المہدی صفحہ 3 روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 430,429 از مرزا قادیانی)

دوسری طرف مارچ 1894ء میں جب چاند گرہن اور سورج گرہن کا اجتماع رمضان المبارک میں ہوا تو مرزا قادیانی  نے ایک انتہائی ناقابل اعتبار قول کا سہارا لے کر پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ میں ہی مہدی ہوں اور رمضان میں چاند اور سورج گرہن میری ہی مہدویت کا نشان ہے۔

 دارقطنی کی رمضان المبارک میں خسوف و کسوف کی وہ روایت جس سے مرزا قادیانی نے استدلال کر کے اپنے دعویٰ مہدویت کی تائید میں پیش کیا، مندرجہ ذیل ہے:

(2)        ’’عن عمرو بن شمر عن جابر عن محمد بن علی قال ان لمھدینا آیتین لم تکونا منذ خلق اللّٰہ السموات والارض تنکسف القمر لاول لیلۃ من رمضان و تنکسف الشمس فی النصف منہ ولم تکونا منذ خلق اللّٰہ السموات والارض۔

(سنن دار قطنی از امام علی بن عمر الدار قطنی جلد اوّل صفحہ 65، بیروت)

(مفرد الفاظ کا ترجمہ) ’’محمد بن علی کہتے ہیں، اِن (بیشک) لمھدینا (ہمارے مہدی کے لیے) آیتین (دو نشانیاں ہیں) لم تکونا (نہیں ہوئیں ظاہر) منذ (جب سے) خلق السمٰوٰت والارض (تخلیق ہوئی آسمان و زمین کی) تنکسف القمر (چاند گرھن ہوگا) لاول لیلۃ (پہلی رات) من رمضان (رمضان کی) و (اور) تنکسف الشمس (سورج گرھن ہوگا) فی النصف منہ (اس رمضان کے نصف میں) لم تکونا (نہیں ہوئی ظاہر) منذ (جب سے) خلق اللّٰہ السمٰوٰت والارض (پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو)‘‘اب آئیے مفرد الفاظ کے ترجمہ کی مدد سے پوری روایت کا ترجمہ کرتے ہیں۔’’بیشک ہمارے مہدی کی (کے لیے) دو نشانیاں ہیں، نہیں ہوئیں وہ (نشانیاں) جب سے تخلیق ہوئی آسمان وزمین کی۔ چاند گرہن ہوگا رمضان کی پہلی رات اور سورج گرھن ہوگا اس (رمضان) کے نصف میں، نہیں ہوئی (ظاہر) وہ نشانیاں جب سے پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو۔‘‘

قارئین!  اس روایت کا جو ترجمہ مرزا قادیانی نے کیا ہے، وہ ملاحظہ کریں اور اس کی دیانتداری کی داد دیں:

(3)        (ترجمہ بقلم مرزا قادیانی) ’’یعنی ہمارے مہدی کی تائید اور تصدیق کے لیے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان پیدا کیے گئے وہ دو نشان کسی مدعی کے وقت ظہور میں نہیں آئے اور وہ یہ ہیں کہ مہدی کے ادعا کے وقت میں چاند کو اس پہلی رات میں گرھن ہوگا جو اس کے خسوف کی تین راتوں میں سے پہلی رات ہے یعنی تیرھویں رات اور سورج کو اس کے گرھن کے دنوں میں سے اس دن گرھن ہوگا جو درمیان کا دن ہے یعنی اٹھائیس تاریخ کو۔ اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدعی کے لیے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ اُس کے دعویٰ کے وقت میں خسوف کسوف رمضان میں ان تاریخوں میں ہوا ہو۔‘‘       (انجام آتھم ضمیمہ صفحہ 46 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 330 از مرزا قادیانی)

 کیا ہم قادیانی جماعت سے پوچھ سکتے ہیں کہ خط کشیدہ الفاظ’’کسی مدعی کے وقت، مہدی کے ادعا کے وقت، جو اس کے خسوف کی تین راتوں میں سے پہلی رات ہے یعنی تیرھویں رات، اور سورج کو اس کے گرھن کے دنوں میں سے اس دن گرھن ہوگا جو درمیان کا دن ہے یعنی اٹھائیس تاریخ کو‘‘، روایت دارقطنی کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے؟

قارئین! دارقطنی کی روایت کے ترجمہ پر مرزا قادیانی کے کیے ہوئے ترجمہ کو پرکھیں، کیا اس ترجمہ میں کہیں روایت قطنی کا مفہوم باقی رہ سکتا ہے؟ لاول لیلۃ من رمضان کا ترجمہ تیرھویں رات کرنا اور فی النصف منہ کا ترجمہ اٹھائیس تاریخ کرنا کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر ظلم یہ کہ اس واضح بددیانتی کے باوجود وہ اپنے دعویٰ اور اس پر غلط تاویل کے نہ ماننے والے کو ’’ظالم، رئیس الدجال کہتا اور ہزار ہزار لعنت!‘‘ کا تحفہ پیش کرتا ہے۔                                                             (انجام آتھم ضمیمہ صفحہ 46 مندرجہ روحانی خزائن 11 صفحہ 330 از مرزا قادیانی)

اس مذکورہ روایت عبارت کے حوالہ سے چند اہم اور قابل غور نکات پیش خدمت ہیںان کا خصوصی توجہ سے ملاحظہ فرمائیں:۔-1سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کا اس روایت کو حدیث نبویﷺ بنا کر پیش کرنا نبی کریمﷺ پر بہتان عظیم اور صریح دھوکہ ہے۔ یہ ایک قول ہے جو محمد بن علی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔-2اس نام کے بہت سے راوی ہیں۔ پھر یہ کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ کون سے محمد بن علی کا قول ہے ؟ لیکن مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کا اصرار ہے کہ یہ محمد بن علی، جناب امام محمد باقر ہیں جو شہید کربلا حضرت امام حسینؓ کے پوتے ہیں۔-3حضرت امام محمد باقر کی طرف منسوب یہ قول کئی وجوہات کی بنا پر ناقابل اعتبار اور ناقابل حجت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ساقط اور مردود ہے کیونکہ اس روایت کا پہلا راوی عمرو بن شمر بڑا جھوٹا آدمی تھا۔ وہ اپنی طرف سے جھوٹی روایتیں بنا بنا کر بزرگوں کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ دارقطنی اور نسائی نے اس کو متروک الحدیث کہا ہے۔ ابن حبان نے اس کی نسبت کہا کہ وہ صحابہ کرامؓ کو گالیاں دیتا تھا اور موضوع روایات بیان کیا کرتا تھا۔ امام بخاریؒ نے فرمایا کہ عمرو بن شمر منکر الحدیث ہے۔  (میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 262)-4اس روایت کا دوسرا راوی جابر جعفی ہے۔ یہ شخص بھی بڑا دجال تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ میں نے جابر جعفی سے بڑھ کر کسی کو جھوٹا نہیں دیکھا۔ نسائی نے کہا کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ لیث بن ابوسلیم نے کہا کہ وہ کذاب تھا۔ سعید بن جبر نے کہا کہ وہ جھوٹا ہے۔ ابن حبان نے کہا کہ وہ سبائی یعنی عبداللہ بن سبا یہودی کا پیروکار تھا۔  (تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 46 تا 50)-5فرض کیجیے اگر یہ روایت یا قول صحیح بھی ہو تو بھی یہ مرزا قادیانی کے حق میں نہیں جاتا۔ کیونکہ احادیث مبارکہ میں جس قدر علامتیں حضرت امام مہدیؓ کی بیان ہوئی ہیں، ان میں کوئی علامت بھی مرزا قادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ ‘‘

اس پیش گوئی میں دو دفعہ یہ جملہ بطور خاص آیا ہے: ’’لم تکونا منذ خلق اللّٰہ السموات والارض‘‘ کہ مہدی کی دو نشانیاں ایسی ہیں کہ جب سے زمین و آسمان بنے، ان دونوں نشانیوں کا ظہور آج تک ہوا ہی نہیںیعنی جب سے زمین و آسمان بنے ہیں، ان تاریخوں میں کبھی چاند اور سورج کا گرہن نہیں لگا۔ اگرمعمول کے مطابق چیزیں

ظاہرہوں تو وہ نشانی تو نہ ہوئی ۔ جبکہ مرزا قادیانی کے دور میںرمضان المبارک کی 13 کو چاند گرہن اور 28 کو سورج گرہن لگا۔ اور ایسا مرزا قادیانی سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکاہے۔

اس قول میں مہدی کے دو نشان بے نظیرہیں‘ یعنی چاند گرہن رمضان المبارک کی پہلی رات کو اور دوسری علامت سورج گرہن کا رمضان کی درمیانی تاریخ کو ہونا۔ جبکہ مرزا قادیانی کے خود لکھتا ہے: ’’چاند گرہن 13 رمضان کو ہوا اور سورج گرہن 28 رمضان کو‘‘ (انجام آتھم ضمیمہ صفحہ 50روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 334 ) لیکن مرزا قادیانی نے ان تاریخوں کا ترجمہ اپنے مفاد کے تحت کر کے اپنے لیے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کر لیا۔ مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’حقیقتہ الوحی‘‘ میں اس قول کا ترجمہ یہ لکھا:

(04)      ’’مہدی موعود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن اس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دنوں یعنی چاند کی اوّل تاریخ سے مراد تیرھویں تاریخ اور رمضان کے نصف سے مراد اٹھائیس تاریخ۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ تیرہ رمضان کو کوئی اوّل رمضان نہیں کہتا اور نہ اٹھائیس تاریخ کو کوئی رمضان کا نصف کہتا ہے۔ یہ ہیںقادیانی تادیلات جس پر پوری قادیانی عمارت کھڑی ہے۔

مرزا قادیانی کا ضمیمہ ’’انجام آتھم‘‘ صفحہ 47 میں نہایت دیدہ دلیری سے یہ لکھنا کہ اے نادانو، آنکھوں کے اندھو، مولویت کو بدنام کرنے والو، ذرا سوچو کہ حدیث میں قمر کا لفظ آیا ہے، اگر یہ مقصود ہوتا کہ پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا تو حدیث میں قمر کا لفظ نہ آتا بلکہ ہلال کا لفظ آتا۔‘‘یہ  اس بات کی بین دلیل ہے کہ مرزا قادیانی کو نہ تو قرآن پر عبور تھا نہ لغت ہی سے مس تھاکیونکہ عربی میں چاند کو قمر کہتے ہیں اور عربی میں چاند کا یہی اصلی نام ہے، چنانچہ رب جلیل نے فرمایا: والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم ۔غرض چاند کی پہلی رات کو جس طرح ہلال کہتے ہیں، اسی طرح قمر بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ قمر سب تاریخوں کے لیے مشترک نام ہے۔

مرزا قادیانی لکھتا ہے

(05)      ’’کسی مدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے۔‘‘

(حقیقتہ الوحی صفحہ 196 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 203 از مرزا قادیانی)

(06)      ’’چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دے کر صدہا اشتہار اور رسالے اردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کیے، اس لیے یہ نشانِ آسمانی میرے لیے متعین ہوا۔‘‘                                                                   (حقیقتہ الوحی صفحہ 195 مندرجہ خزائن جلد 22 صفحہ 202 از مرزا قادیانی)

حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ اپنی کتاب’’شہادت آسمانی‘‘ میں لکھتے ہیں:’’رمضان شریف کی 13 اور 28 کو گرہنوں کا اجتماع معمولی بات ہے۔ ۔۔مگرمسٹر کیتھ کی کتاب یوز آف دی گلوبس اورحدائق النجوم میں مذکورہ فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ نوے برس کے عرصے میں چاند گرہن رمضان کے13 تاریخ کو پانچ مرتبہ ہوا یعنی1263ھ اور1267ھ اور1291ھ اور 1310ئ، 1311ء اور1312ھ ہے اور سورج گرہن28 رمضان کو36 برس میں 6 مرتبہ ہوا اوردونوں کا اجتماع ان تاریخوں میں 3 مرتبہ ہوا۔ یعنی 46  برس میں 3مرتبہ چاند گرہن اور سورج گرہن کا اجتماع رمضان المبارک کی 13 اور28 تاریخ کو ہوا۔ پھر کیا ایسے ہی گرہن نشان و معجزہ ہوسکتے ہیں؟

گرہنوں کا پہلا اجتماع یعنی پہلا چاند گرہن 13 رمضان 1267ھ مطابق 13 جولائی 1851ء اور سورج گرہن 28 جولائی 1851ء مطابق 28 رمضان 1267ھ کو لگا۔ اس وقت مرزا قادیانی کی عمر گیارہ یا بارہ برس کی ہوگی ۔ بعض مرزائی اس گرہن کو بھی مرزا قادیانی ہی کا نشان سمجھتے ہیں۔ اگر اسے علامت کہا جائے تو یہ علی محمد باب کے لیے ہوگا کیونکہ اس کے دعویٰ نبوت و مہدویت کے بعد یہ گرہن ہوا ہے جس وقت اس کا خلیفہ اس کے دعوے کو روشن کر رہا تھا۔ یہ (بابی،بہائی) فرقہ اب تک موجود ہے۔

گرہنوں کا دوسرا اجتماع یعنی چاند گرہن 21 مارچ 1894ء مطابق 13 رمضان 1311ھ اور سورج گرہن 6 اپریل 1894ء مطابق 28 رمضان 1311ھ۔ اس گرہن کا ظہور ہندوستان نہیں بلکہ امریکہ میں ہوا جس وقت مسٹر ڈوئی مدعی مسیحیت اور سوڈان میں انہی دنوں میں محمد احمد نے بھی مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا۔ادھرمرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’حقیقتہ الوحی‘‘ میں اس گرہن کو بھی اپنا نشان بتایا ہے۔اگر 1311ھ کا خسوف و کسوف مرزا قادیانی کے لیے نشان بن سکتا ہے تو پھر محمد احمد سوڈانی اور مسٹر ڈوئی کے لیے اس کو نشان کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا؟ تین دعوے داروں میں سے دو کو تو جھوٹا قرار دیا جائے اور تیسرے کے لیے اس کی صداقت کی دلیل ٹھہرائی جائے؟

گرہنوں کا تیسرا اجتماع  یعنی چاند گرہن 11 مارچ 1895ء مطابق 13 رمضان 1312ھ اور سورج گرہن 26 مارچ 1895ء مطابق 28 رمضان 1312ھ۔ یہ وہی گرہن ہے جسے مرزا قادیانی نے اپنے لیے آسمانی شہادت ٹھہرایا ہے اور دارقطنی کی روایت کا مصداق قرار دیا ہے مگر یہاں غور کرنا چاہیے کہ روایت کے مطابق وہ دونوں گرہن ایسے بے مثل اور بے نظیر ہوں گے کہ جب سے زمین و آسمان بنے ہیں اس وقت سے ان کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اور اس سال کا گرہن تو ایسا تھا کہ گذشتہ46سالوں میں اس کی دو مثالیںملتی ہیں ایک  نظیر تو اس سے ایک سال پہلے یعنی 1311ھ میں ہی موجود ہے پھر وہ بے نظیر کس طرح ہو سکتا ہے؟

جن تاریخوں میں چاندوسورج گرہن دونوں کا اکٹھا اجتماع ہوا، اس دوران کئی لوگوں نے مہدی اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور عرصہ تک مخلوق خدا کو گمراہ کیا۔ مثلاً:۔صالح بن طریف برغواطینے 127ھ میں نبوت اور مہدی اکبر کا دعویٰ کیا۔ اس کے زمانہ میں 162ھ (779ئ) میں رمضان المبارک میں خسوف و کسوف ہوا۔مدت دعوائے نبوت 27 برس۔اس کے خاندان میں 330 برس بادشاہت رہی۔ابو منصور عیسیٰنے 341ھ میں دعوائے نبوت کیا۔رمضان المبارک 346ھ میں اس کے وقت میں خسوف و کسوف کا اجتماع ہوا۔ دعویٰ نبوت 23 برس کے بعد مارا گیا۔علی محمد باب نے 1240ھ میں ایران میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔اس کے زمانہ میں 1247ھ مطابق 1851ء رمضان میں خسوف و کسوف کا اجتماع ہوا۔توپھر صالح بن طریف، ابو منصور عیسیٰ اور علی محمد باب کے ادوار میں رمضان المبارک میں خسوف و کسوف کے یہ اجتماعات نشان کیوں نہیں بن سکتے؟

 مرزا قادیانی کے دعو ے کوکہ مجھ سے پہلے کسی مدعی نبوت کے وقت میں اس قسم کا گرہن نہیں ہوا صالح نے غلط کر دیاکیونکہ اس کے وقت میں بھی اس قسم کا گرہن ہوا۔ اسی طرح مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ تھا کہ کوئی جھوٹا مدعی 20 برس کامیاب نہیں رہتا بلکہ ذلت سے مارا جاتا ہے۔ صالح باوجود کاذب ہونے کے 47 برس بادشاہ رہا اور اس کی اولاد میں کئی سو برس سلطنت رہی۔قادیانی جماعت کو ماننا پڑے گا کہ 1311ھ میں گرہنوں کا اجتماع جو رمضان شریف میں ہوا ہے یہ مرزا قادیانی یا کسی دوسرے مدعی مہدویت کی صداقت کا نشان نہیں۔ روایت کے وہ معنی نہیں ہیں جو مرزا قادیانی نے سمجھے ہیں۔ روایت میں جن گرہنوں کے اجتماع کو مہدی کا نشان بتایا ہے، وہ ایسا ہونا چاہیے جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہو اور جو اجتماع حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے اس وقت تک سکڑوں مرتبہ ہوا ہو، وہ کسی کے صدق یا کذب کا نشان نہیں ہو سکتا۔