Language:

حضرت خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ

            قطب العالم حضرت خواجہ خان محمدؒ کا شمار بلاشبہ ’’الآخرون السابقون‘‘ میں ہوتا ہے، جن کی پوری زندگی اہل فتن بالخصوص منکرینِ ختم نبوت سے جہاد و پیکار میں گزری۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت و عقیدت و احترام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی پرُجوش ایمانی غیرت نصیب کی کہ وہ بڑھاپے کے عالم میں بھی ہمہ وقت قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں پر نہ صرف بے قرار رہتے بلکہ جوانوں کی طرح اس فتنہ کے خلاف مصروف جہاد رہے۔ حضرت خواجہ خان محمدؒ عقیدۂ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے کارکنان کی کامیابی کے لیے ہر روز اللہ تعالیٰ سے بے شمار دعائیں، التجائیں، استدعائیں اور نالہ ہائے نیم شبی میں اتنی سسکیاں بھرتے کہ مالک ارض و سما کو ان پر ترس آ جاتا اور ان کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا جاتا۔

            میرپور خاص سندھ کے ڈاکٹر احمد اللہ ہمدانی مدینہ طیبہ گئے۔ روضہ طیبہ پر درود و سلام پڑھا اور دعا کی کہ اے آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم! آپ کا جو بہت پیارا امتی ہے، اس بزرگ کی مجھے آج زیارت ہو جائے۔ یہ دعا کر کے مواجہ شریف سے پیچھے ہٹے تو ایک دوست نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان سے مولانا خواجہ خان محمد صاحب مرکزی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تشریف لائے ہوئے ہیں، آپ زیارت کے لیے چلیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ آج تو میری دعا نقد قبول ہو گئی۔ میں گیا اور جا کر مولانا خواجہ خان محمدؒ سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ سجادہ نشین کندیاں شریف نے علما، خطبا اور اہل علم کے نام ایک خط جاری فرمایا اور انھیں ان کے فرائض کی طرف متوجہ فرماتے ہوئے لکھا:

’’جناب واجب الاحترام علمائے کرام زید مجد کم العالی

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!

آپ کو معلوم ہے کہ قادیانی، مرزائی اندر ہی اندر مسلمانوں کو مرتد بنانے میں مصروف ہیں، میں آپ حضرات سے اللہ کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ مہینہ میں صرف ایک ہی مرتبہ سہی، اپنے خطبہ میں صرف دس، پندرہ منٹ تحفظ عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانی، مرزائی کا مکروہ چہرہ کے متعلق نوجوانوں کو آگاہ فرما دیا کریں، تاکہ ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس حق کو ادا کرنے میں خدا کے ہاں اجر کے مستحق بن سکیں۔ امید ہے کہ آپ توجہ فرمائیں گے۔

والسلام

فقیر خان محمد عفی عنہ

خانقاہ سراجیہ

27 جمادی الاوّل 1428ھ‘‘

حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب کے اس درد بھرے مکتوب کی روشنی میں ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ جس سے جو بن پڑے، اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق بنے، ورنہ اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ کل قیامت کے دن حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر ہماری شفاعت کرنے سے انکار فرما دیں کہ تمھارے سامنے میری ردائے ختم نبوت کو تار تار کیا جاتا رہا اور تم نے نہ صرف اس کا سدباب نہ کیا بلکہ تمھارے ماتھے پر کوئی شکن تک نہیں آئی تھی۔ خدانخواستہ اگر کل قیامت کے دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر ہم سے منہ موڑ لیں تو بتلایا جائے ہمارا کیا بنے گا؟ اور ایسی صورت میں ہماری ہلاکت و بربادی میں کوئی شک وشبہ رہ جاتا ہے؟؟؟؟

تحفظِ ختم نبوت کے محاذ پر گرانقدر خدمات انجام دینے والے جناب عامر خورشید صاحب عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے امیر حضرت خواجہ خان محمدؒ سے باقاعدہ بیعت تھے۔ حضرت کے روحانی فیض نے جنید جمشید کی طرح ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ عامر بھائی تحفظِ ختم نبوت کے کام میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ایک دفعہ انھیں خیال گزرا کہ تبلیغی جماعت والے تبلیغ کے کام کی فضیلت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کا بے شمار ثواب بیان کرتے ہیں تو کیا تحفظِ ختم نبوت کا کام کرنے کا بھی اتنا ہی ثواب ہے یا نہیں؟ لہٰذا انھوں نے اپنے شیخ حضرت خواجہ خان محمدؒ سے اس بارے پوچھا تو حضرت نے جواب دیا کہ تبلیغ کا کام کرنے کی اہمیت و افادیت اور ثواب اپنی جگہ پر، اس سے انکار نہیں لیکن تحفظِ ختم نبوت کا کام کرنے والے کو تبلیغ کا کام کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ثواب ملتا ہے کیونکہ تحفظِ ختم نبوت کا کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر 100 فیصد پورا اترتا ہے۔ یہ کام نہ صرف دین کی بہترین تبلیغ ہے بلکہ اس میں مرتدین اسلام کی سرکوبی بھی شامل ہے۔ منکرین ختم نبوت کی خلافِ اسلام مذموم سرگرمیوں اور سازشوں کو روکنا وقت کا سب سے بڑا جہاد اور تبلیغ ہے۔ لہٰذا اس کا ثواب تمام عبادات سے بڑھ کر ہے۔

بلاشبہ موجودہ دَور میں تحفظِ ختم نبوت کا کام اعلیٰ ترین درجے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے پورا کرتا ہے۔ بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ جس نے تحفظِ ختم نبوت کے کام سے انکار کیا، گویا اس نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا انکار کیا۔

q          قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ کے سلسلہ میں حضرت اقدس ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں:

’’قادیانی / مرزائی کفار محارب، مرتد و منافق، ملحد و زندیق ہیں۔ ان کا حکم عام کفار سے مختلف ہے۔ قادیانیوں / مرزائیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں تو بھی ان کا حکم عام کافروں کا نہیں ہوگا بلکہ وہ زندیق ہیں۔ زندیق اس کافر کو کہتے ہیں جو شرعی اصطلاحات و الفاظ تو نہ بدلے بلکہ ان کے اجماعی اور متفق علیہ مفہوم کو بدل دے یعنی وہ کفر کا نام اسلام رکھ دے۔ مرتد اور زندیق کی اصل سزا قتل ہے جس کا نفاذ حکومت اسلامیہ کے ذمہ ہے۔ تاہم جب تک ان کی اصلی سزا کا نفاذ نہ ہو، اہل اسلام پر ضروری ہے کہ وہ ان سے الگ رہیں۔ قادیانیوں / مرزائیوں سے معاشی، معاشرتی، دوستانہ تعلقات، نشست و برخاست وغیرہ حرام ہیں۔ ان سے برادرانہ تعلقات کو منقطع کرنا چاہیے۔

            ان سے سلام و کلام، لین دین اور خرید و فروخت نہ کی جائے اور نہ ان سے کسی قسم کی پارٹنر شپ کی جائے۔ نہ ان کے ہاں ملازمت کی جائے اور نہ ہی ان کو ملازم رکھا جائے۔ ان کے کارخانوں اور فیکٹریوں سے نہ مال خریدا جائے اور نہ ان کو کسی قسم کی سہولت اور فائدہ پہنچایا جائے اور نہ ان کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات استعمال کی جائیں۔ ان کی تعلیم گاہوں، ہوٹلوں، ریستورانوں میں جانا یا کسی طرح سے تعلق رکھنا یا تعاون کرنا ناجائز ہے۔ قادیانیوں / مرزائیوں کے ہسپتالوں، ڈسپنسریوں کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے اور ان سے علاج کروانا یا کسی قسم کا معاملہ کرنا یا تعاون ناجائز اور حرام ہے۔ قادیانیوں / مرزائیوں کا بائیکاٹ ظلم نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کا اہم ترین حکم اور اسوۂ رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جو شخص ان کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ان سے تعلقات رکھتا ہے وہ گمراہ، ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے۔ قادیانیوں / مرزائیوں سے اقتصادی و معاشی و معاشرتی اور سیاسی مقاطعہ یا مکمل سوشل بائیکاٹ کا شرعی حکم بالکل واضح اور اسلامی عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ غیرت ایمانیہ اور حمیت دینیہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قادیانیوں / مرزائیوں سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور یہ عشق مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم کی علامت ہے۔‘‘