Language:

قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ

عقیدۂ حیات مسیح علیہ السلام یعنی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا اور ان کا قرب قیامت اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونا مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے جو قرآن اور احادیث سے منصوص ہے۔ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ محدثین نے اپنی کتب حدیث میں ’’نزولِ عیسیٰ ابن مریم‘‘ کے عنوان سے مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔ ہر دور میں اہل علم نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔

1891ء میں مرزا قادیانی نے حیات مسیح کا انکار کیا اور اپنے نام نہاد الہام کی بنیاد پر وفات مسیح کا عقیدہ گھڑا اور خود مسیح موعود بن بیٹھا حالانکہ مرزا قادیانی نے جو پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے لکھی، اس میں قرآن کریم کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے دوبارہ نازل ہونے کا ذکر کیا اور اس عقیدہ پر تقریباً 12 سال تک قائم بھی رہا۔ پھر یکایک اپنے ’’خاص الہام‘‘ کی بنیاد پر وفات مسیح کا اعلان کر دیا۔ اس نے وفات مسیح کے موضوع پر ’’فتح اسلام‘‘، ’’توضیح مرام‘‘ اور ’’ازالہ اوہام‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں جن میں قرآن کریم کی تیس آیات میں معنوی تحریف کر کے تحریر کیا  کہ ان آیات سے وفات مسیح کا ثبوت ملتا ہے۔ مرزا قادیانی کے ہمعصر علمائے کرام نے مرزا قادیانی کی مذکورہ کتابوں کا مدلل جواب دیا۔ بعض اہل علم نے مرزا قادیانی کو چیلنج دیا کہ ان کی کتابوں میں دیے گئے دلائل کو توڑنے اور بعض مصنفین نے تو دلائل توڑنے  کا جواب دینے والوں کو انعام دینے کا اعلان بھی کیا لیکن نہ تو مرزا قادیانی کو جواب دینے کی ہمت ہوئی اور نہ کسی قادیانی ہی نے انعامی چیلنج کو قبول کیا اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔

ان کتابوں میں ’’غایت المرام‘‘ اور ’’تائید الاسلام‘‘ نامی کتابیں قابل ذکر ہیں جو مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی ’’رحمۃ للعالمینصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصوریؒ نے رقم فرمائیں اور یہ کتب دراصل مرزا قادیانی کی تصانیف فتح الاسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام کا مدلل جواب تھیں۔ انھوں نے مرزا قادیانی کے پاس اپنی مذکورہ کتابیں اس خلوص نیت سے بھیجیں کہ اس کی اصلاح ہو سکے۔ قاضی صاحب مرحوم نے مناظرہ بازی کے بجائے علمی مکالمہ کا راستہ اپنایا۔ کتاب کے ساتھ ایک پیش گوئی بھی لکھ کر روانہ کی۔ انھوں نے لکھا:

’’چونکہ آپ پیش گوئیاں بہت کرتے ہیں اس لیے بہ توفیق الٰہی، میں بھی تین باتیں لکھ دیتا ہوں:

(1)آپ کو حج نصیب نہیں ہوگا۔

(2) آپ سے اس کتاب کا جواب نہ بن پڑے گا۔

(3) آپ کی موت میری موت سے قبل ہوگی۔‘‘

قاضی صاحب مرحوم کی اُن پیش گوئیوں پر دوستوں نے رد و قدح کی تو فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا۔ پھر احباب کو ایک خواب سنایا کہ:

’’حضرت سیدنا امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو دیکھا کہ ایک حوض میں ہیں، میں نے قریب جا کر سلام کیا تو انھوں نے پانی کے چھینٹے مجھ پر پھینکے۔ میں نے عرض کیا کہ شہزادو! میں آپ کے خاندان کے غلاموں کے غلاموں سے بھی کمتر ہوں۔ یہ شوخی کیسی؟ فرمایا سلمان! یہ شوخی نہیں، عطا ہے۔ ہم جس حوض میں ہیں، اس کے چند چھینٹے تمھیں عطا کر رہے ہیں۔ یہ ’’غایت المرام‘‘ لکھنے کا انعام ہے۔ ہماری طرف سے تم بھی اس کو (مرزا قادیانی کو) تین پیشگوئیاں کر دو۔ وہ بھی پیشگوئیاں کرتا رہتا ہے۔‘‘

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مرزا قادیانی پندرہ سال زندہ رہا لیکن جواب لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی اور نہ حج ہی نصیب ہوا اور مرزا کی موت بھی پہلے واقع ہو گئی۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس حوض کے چند چھینٹے عطا فرمائے! آمین!)