• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • مقام اہلبیت اور انکے خلاف مرزا کی گستاخیاں
Language:

مقام اہلبیت اور انکے خلاف مرزا کی گستاخیاں

 مناقِب شیر خدا سیّدنا علی رضی اللّٰہ عنہ :
زرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ علی رضی اﷲ عنہ سے منافق کو محبت نہ ہوگی اور مومن کو بغض نہ ہو گا ، اور جس نے علی کو گالیاں دیں اس نے دراصل مجھے گالیاں دیں ۔
ز ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو مردوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے تھی۔
مناقِب سیّدة النّساء فاطمتہ الزّہراء رضی اللّٰہ عنہا :
زرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فاطمہ رضی اﷲ عنہا میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض (غضب ناک)کیا،اْس نے مجھے ناراض (غضب ناک)کیا اور جس نے اس کو ناخوش کیا ، اْس نے مجھ کوناخوش کیا اور جس نے اس کو اذیت پہنچائی اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی ”۔ (بخاری ومسلم)
زحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجس کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کی رات میں ایک مقدس فرشتہ زمین پرنازل ہواجو اس سے پہلے زمین پر نہیں آیا تھا اور حق تعالیٰ سے اجازت لے کر اس مقصد سے نازل ہوا کہ مجھ کو سلام کرے اوربشارت سنائے کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا)جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما)نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے۔ (رواہ الترمذی)
زوفات مبارک سے چند روز پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا اے فاطمہ تمہارے لئے بہت خوشی کامقام ہے کہ تجھے جنتی عورتوں کی سردار بنایا جائے گا۔ (حاصل حدیث :رواہ البخاری ومسلم)
مناقِب سیّدنا حَسَن وحُسَین رضی اللّٰہ عنہما :
زحضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ (حضرت )حسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے نصف ِ اعلی ٰ میں سَر تابہ سینہ تک بہت مشابہ تھے اور (حضرت)حسین سینہ کے بعد سے قدم مبارک تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے بہت ہی مشابہت رکھتے تھے۔
ز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں حضرت حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) تھے اور آپ یہ دعا فرمارہے تھے۔”اے اللہ میںحسن اور حسین سے محبت کرتاہوں۔اے اللہ آپ بھی ان دونوں کو اپنا محبوب بنالیجیے اور ان لوگوں سے بھی محبت فرمائیے جو ان سے سچی محبت کریں۔”
زایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اس طرح تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاندھے پر حسن (رضی اللہ عنہ)اور دوسرے پرحسین (رضی اللہ عنہ ) تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غایت شفقت سے کبھی ایک کو پیار کرتے اور کبھی دوسرے کو۔اس پر حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا ،یا رسول اللہ !خداکی قسم آپ کو تو ان دونوں بچوںسے بہت محبت معلو م ہوتی ہے۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما)سے محبت کریگا اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔” (البدایتہ والنہایتہ ص ٥٠٢ج٨)
زحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل بیت میں سب سے زیادہ کو ن محبوب ہے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے محبوب مجھ کو حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما ) ہیں اور بارہاآپ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہما)سے فرمایا کرتے تھے :”میرے پاس میرے دونوں بیٹوں حسن اورحسین کوبلادو تاکہ میں اُن کو محبت سے اپنے سینے سے لگاؤں اور پیار کروں۔” (رواہ الترمذی )
زایک روز صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،اس شان سے کہ آپ ایک اونی منقش کمبل اوڑھے ہوئے تھے۔اتنے میں حسن بن علی آگئے ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کواپنے کمبل میں داخل کرلیا پھرحسین بھی آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنے کمبل میں داخل کرلیا۔ پھر حضرت ِفاطمہ تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنے کمبل میں داخل کرلیا۔ان کے بعد حضرت علی تشریف لے آئے۔آپ نے ان کو بھی اسی کمبل میں لے لیا۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :
انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا
ترجمہ:۔اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ اے پیغمبر کے گھر والو! تم سے (معصیت ونافرمانی کی )گندگی کو دور رکھے اور تم کو (ظاہراً وباطناً ،عقیدةً وعملاً وخلقاً) بالکل پاک وصاف رکھے۔
زنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مقام خم کے قریب جومکہ اور مدینہ کے درمیان میں واقع ہے۔کھڑے ہوکر عام مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا۔خطبہ میں حمدوثنا کے بعد مختلف نصیحتیں فرمائیں۔اس کے بعد ارشاد فرمایا:۔”اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں ،عنقریب زمانہ میں ایسا معلو م ہوتا ہے کہ میرے پاس میرے پروردگار کا پیامی آئے گا اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں گا تو میں تم میں دوعظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جاؤں گا۔ان میں پہلی چیز کتاب اللہ ہے۔جس میں ہدائیت اور نور ہے۔ تم کتاب اللہ کو مضبوط پکڑ لو اور اسکی حفاظت کی پوری پوری کوشش کرو۔”اسکے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مختلف طریقے پر کتاب اللہ کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کی رغبت دلائی اس کے بعد ارشاد فرمایا :” دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔تم خدا سے ڈرنا،میرے اہل بیت کے معاملے میں تم اللہ سے ڈرنا میرے اہل بیت کے معاملے میں۔” (یہ جملہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دومرتبہ ارشاد فرمایا۔رواہ مسلم)
اہلبیت رضی اللّٰہ عنہم سے متعلق قادیانیوں کی غلیظ زبان
اہل بیت کا نسب نہایت پاکیزہ و عالی ہے۔ ان کے حق میں قرآن کریم کی کئی آیات نازل ہوئیں اور کئی احادیث نبویہ ان کی شان میں وارد ہوئیں۔ وہ سب مسلمانوں کے احترام، توقیر اور ان کی محبت کے لائق اور مستحق ہیں۔ ہر مسلمان اہل بیت سے محبت اپنے لیے سرمایۂ حیات سمجھتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل بیت پر طعن و تشنیع کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا۔ لیکن اس دنیا میں ایسے بدبختوں اور نامرادوں کی کمی نہیں جو ان کے خلاف اپنی گز گز بھر لمبی زبانیں کھولتے ہیں۔ ایسے ہی نامرادوں میں ایک آنجہانی مرزا غلام قادیانی ہے۔مرزا قادیانی نے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ، اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کیں اور اپنے آپ کو ان سب سے برتر اور افضل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مرزا قادیانی کی غلیظ زبان اور بد بختی کے چندنمونے پیش نظر ہیں:
(1) حضرت علی کے بارے میں مرزا قادیانی زبان دراز کرتے ہوئے لکھتا ہے:
ز”پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو۔ اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو۔”
(ملفوظات جلد اول صفحہ 400، طبع جدید، از مرزا قادیانی)
(2) نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور شہید کربلا حضرت امام حسین کے بارے میں مرزا قادیانی لکھتا ہے:
ز”اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے، کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔” (اعجاز احمدی صفحہ70 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 181 از مرزا قادیانی)
ز”اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔” (اعجاز احمدی صفحہ81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 193 از مرزا قادیانی)
ز”تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا۔ اور تمہارا ورد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے۔ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ (ذکرحسین) کا ڈھیر ہے۔” (نقلِ کفر کفر نباشد! مرزا قادیانی پہ لعنت بے شمار)۔ (اعجاز احمدی صفحہ82 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 194 از مرزا قادیانی)
ز ”کربلائیست سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم”
ترجمہ: میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے۔ سو (100) حسین ہر وقت میری جیب میں ہیں۔ (نزول المسیح صفحہ99 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ477 از مرزا قادیانی)
ز” اے قوم شیعہ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے۔”
(دافع البلاء صفحہ 17، مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233 از مرزا قادیانی)
(3) سیدہ النساء حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ عہناکی شرمناک توہین:
زجگر گوشہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدة النساء حضرت فاطمہ الزہرا کی ذات پاک کے بارے میں مرزا قادیانی نے جو بکواس کی ہے، ہمارا قلم اسے لکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اگر کسی نے یہ بکواس دیکھنی ہو تو ملعون مرزا قادیانی کی کتاب کا حوالہ درج ہے ۔ (ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ) صفحہ9 امندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233 از مرزا قادیانی)
(4) اپنے ایک شعر میں پنج تن پاک کی توہین کرتے ہوئے اپنی اولاد کو پنج تن کہتا ہے:
ز ”میری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے” (در ثمین اردو صفحہ49 از مرزا قادیانی)
(5) مرزائیوں کے نزدیک اب مرزا قادیانی کی اتباع کئے بغیرسید بھی سید نہیں رہے گا :
زمرزا قادیانی کا بیٹا اور قادیانی جماعت کا خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود لفظ ”سید” کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:”اب جو سید کہلاتا ہے اس کی یہ سیادت باطل ہو جائے گی۔ اب وہی سید ہوگا جو حضرت مسیح موعود (مرزا) کی اتباع میں داخل ہوگا۔ اب پرانا رشتہ کام نہیں آئے گا۔” (قول الحق صفحہ 32 مندرجہ انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 80 از مرزا بشیرالدین محمود)

ہم شہادت حسین کتنے جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ناناجا ن صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کے تحفظ کی خاطر ، حق کی سر بلندی کی خاطر میدان کربلا کو اپنے خاندان کے خون سے رنگین ہوتے دیکھا ۔اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرا دیا بالاخر اپنا سر بھی قلم کرادیا ، لیکن اپنے نانا جان صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین پر آنچ نہ آنے دی ۔دعویٰ ہمارا یہ ہے کہ ہم اسلام کے سپاہی ہیں ۔ہم اسلام کے کیسے سپاہی ہیں ؟ اسلام پر تو قادیانی کتے حملہ آور ہیں اورہم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں ۔حضرات اہل بیت کرام کی شان میں ایسی توہین کرنے والوں کے ساتھ ہماری دوستیاں یارانے کیا مطلب رکھتے ہیں ؟ان کے ساتھ اقتصادی ومعاشی و معاشرتی ا ور سیاسی تعلقات استوار کرکے ہم کس طرح اہل بیت سے محبت اور وفاداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟اور اگر ہم ان تمام باتوں کا علم ہو جانے کے بعد بھی اپنے تعلقات ان قادیانیوں سے رکھ رہے ہیں تو کیا ہم بے حس نہیں ہیں تو اور کیا ہیں ؟کیا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے ؟کیا شہید کربلا کی غلامی کا حق یہی ہے ؟ اے مسلمان تیری غیرت کہاں سو گئی ؟