Language:

کادیانیوں کی پناہ گاہ

تمام ا نبیاء علیہم السلام کی تعلیم یہی رہی ہے کہ ہر مصیبت میں اﷲ کی پناہ ڈھونڈی جائے اور اسی کو پکارا جائے ۔اسی لیے مسلمان مصیبت میں اﷲ رب العزت کی پناہ ڈھونڈتے ہیں ۔ دوسرے نمبر پر ہندو ،عیسائی،یہودی سب ادیان کے لوگ بھی اپنے رنگ میں اﷲ کی ہی پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیںجو اﷲ کے منکر ہیں ان کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ مگر ایک عجیب گروہ دنیا میں ایسا بھی ہے جو اخلاقی پستی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا یہ گروہ مصیبت کے وقت میںانگریزوں کی پناہ ڈھونڈتا ہے۔اس گروہ کا نام قادیانی گروہ ہے ۔ اس گروہ کا مذہب وہی ہوتا ہے جو انگریز کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے۔ اس گروہ کا بانی مرزا قادیانی  انگریز کی پناہ کا کیسے ذکر کرتا ہے

 آئیے مرزا قادیانی کی تحریروں سے پڑھتے ہیں 

انگریز کی پناہ بالواسطہ خدا تعالیٰ کی پناہ

(1)        ’’اے نادانو! گورنمنٹ انگریزی کی تعریف تمہاری طرح قلم سے منافقانہ نہیں نکلتی۔ بلکہ مَیں اپنے اعتقاد اور یقین سے سے جانتا ہوں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گورنمنٹ کی پناہ ہمارے لیے بالواسطہ خدا تعالیٰ کی پناہ ہے۔ اس سے زیادہ اس گورنمنٹ کی پُر امن سلطنت ہونے کا اور کیا میرے نزدیک ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ پاک سلسلہ اسی گورنمنٹ کے ماتحت برپا کیا ہے۔ وہ لوگ میرے نزدیک سخت نمک حرام ہیں جو حکام انگریزی کے روبرو اُن کی خوشامدیں کرتے ہیں۔ اُن کے آگے گرتے ہیں اور پھر گھر میں آکر کہتے ہیں کہ جو شخص اس گورنمنٹ کا شکر کرتا ہے، وہ کافر ہے۔ یاد رکھو، اور خوب یاد رکھو کہ ہماری یہ کارروائی جو اس گورنمنٹ کی نسبت کی جاتی ہے، منافقانہ نہیں ہے۔ وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ بلکہ ہمارا یہی عقیدہ ہے جو ہمارے دل میں ہے۔‘‘                  

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 148 طبع جدید از مرزا قادیانی)

 خدائی سپر

(2)        ’’سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے، تمہارے لیے ا یک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدرکرو۔‘‘                                               

 (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 709 طبع جدید، از مرزا قادیانی)

 آسمانی کارروائی کے لیے ملکہ معظمہ کی پُر امن حکومت کی پناہ

(3)        ’’جلسہ جوبلی کی مبارک تقریب پر ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ ملکہ معظمہ کے احسانات کو یاد کر کے مخلصانہ دُعائوں کے ساتھ مبارکباد دے۔ اور حضور قیصرہ ہندو انگلستان میں شکر گزاری کا ہدیہ گزارے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے۔ میرے لیے خدا نے پسند کیا کہ میں آسمانی کارروائی کے لیے ملکہ معظمہ کی پُر امن حکومت کی پناہ لوں۔ سو خدا نے مجھے ایسے وقت میں اور ایسے ملک میں مامور کیا جس جگہ انسانوں کی آبرو اور مال اور جان کی حفاظت کے لیے حضرت قیصرہ مبارکہ کا عہد سلطنت ایک فولادی قلعہ کی تاثیر رکھتا ہے۔ جس امان کے ساتھ میں نے اس ملک میں بودو باش کر کے سچائی کو پھیلایا۔ اس کا شکر کرنا میرے پر سب سے زیادہ واجب ہے۔ اور اگرچہ میں نے اس شکر گزاری کے لیے بہت سی کتابیں اُردو اور عربی اور فارسی میں تالیف کر کے اور ان میں جناب ملکہ معظمہ کے تمام احسانات کو جو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے شامل حال ہیں، اسلامی دنیا میں پھیلائی ہیں۔ اور ہر ایک مسلمان کو سچی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دی ہے۔ لیکن میرے لیے ضروری تھا کہ یہ تمام کارنامہ اپنا جناب ملکہ معظمہ کے حضور میں بھی پہنچائوں۔‘‘    

                                                (تحفہ قیصریہ صفحہ3، مندرجہ روحانی خزائن جلد12، صفحہ 255 از مرزا قادیانی)

 گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ خدا نے ہم کو کر دیا

(4)        ’’جس گورنمنٹ کے زیر سایہ خدا نے ہم کو کر دیا ہے یعنی گورنمنٹ برطانیہ جو ہماری آبرو اور جان اور مال کی محافظ ہے اُس کی سچی خیر خواہی کرنا اور ایسے مخالف امن امور سے دور رہنا جو اس کو تشویش میں ڈالیں۔ یہ اصول ثلثہ ہیں جن کی محافظت ہماری جماعت کو کرنی چاہیے اور جن میں اعلیٰ سے اعلیٰ نمونے دکھلانے چاہئیں۔‘‘

(کتاب البریہ صفحہ14، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13، صفحہ 14 از مرزا قادیانی)

 ہم نے جو اس گورنمنٹ کے زیر سایہ آرام پایا اور پا رہے ہیں

(5)        ’’ہر ایک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہیے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں۔ سخت جاہل اور سخت نادان اور سخت نالائق وہ مسلمان ہے جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے۔ اگر ہم ان کا شکر نہ کریں تو پھر ہم خدا تعالیٰ کے بھی ناشکر گزار ہیں۔ کیونکہ ہم نے جو اس گورنمنٹ کے  زیر سایہ آرام پایا اور پا رہے ہیں، وہ آرام ہم کسی اسلامی گورنمنٹ میں بھی نہیں پاسکتے، ہر گز نہیں پاسکتے۔‘‘                               

(ازالہ اوہام صفحہ 510 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 373 از مرزا قادیانی)

انگریزی سلطنت تمہارے لیے بڑا امن بخش تعویذ ہے

(6) ’’اور ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں سلطنت برطانیہ کا عہد بخشا اور اس کے ذریعہ سے بڑی بڑی مہربانیاں اور فضل ہم پر کیے۔ ہم نے اس سلطنت کے آنے سے انواع اقسام کی نعمتیں پائیں۔ ہماری قوم نے علم اور تہذیب سیکھی اور بہائم کی زندگی سے نکلنا انہیں نصیب ہوا اور حیوانی جذبوں سے نکل کر انسانی کمالات پر پہنچنا میسر آیا۔ سو ہمیں اس گورنمنٹ کے طفیل امید اور فکر سے بڑھ کر امن اور امان ملا… اور یہ سلطنت ہر میدان میں تمہاری مدد کو کھڑی ہوئی اور تمہارے یاروں اور دوستوں اور مکانوں کی نسبت خوب سلوک کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ تمہاری پناہ اور جائے امن ہے۔ اب تم پر اس کے احسان کے حقوق ثابت ہیں … سو مناسب ہے کہ اس گورنمنٹ کے شکر ادا کرنے میں اور ذکر و تذکرہ میں گونگے اور بیہوش نہ بن جائو۔ اس لیے کہ احسان کا بدلہ احسان ہے۔ اور شکر سے غفلت کرنا کفران ہے۔ اور مَیں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سلطنت تمہارے لیے بڑا امن بخش تعویذ ہے اور اس کے ہوتے کسی خود پوش مددگار کی ہمیں ضرورت نہیں۔ اور حقیقت میں ساری حمدیں خدا کے لیے ہیں جس نے ہمیں ایسا قیصر عطا فرمایا جو ہمارے حال کی خبر گیری اور پرداخت میں کوئی قصور اور کوتاہی نہیں کرتا اور کوشش کرتا ہے کہ ہمیں پستی سے باہر لائے۔‘‘               (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 542 تا 544 طبع جدید از مرزا قادیانی)

ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کے سائے میں

(7)        ’’اعملو ایھا الاخوان اننا قد نجونا من ایدی الظالمین فی ظل دولہ ھذہ المکیلۃ… التی نضرنا فی حکومتھا کنضارہ الارض من ایام التھتان۔‘‘ترجمہ: ’’اے بھائیو! جانو کہ ہم نے ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کے سائے میں ظالموں کے ہاتھوں نجات پائی ہے۔ ہم اس حکومت کے سایہ میں اس طرح سرسبز ہوتے ہیں جیسے زمین، موسم بہار میں سرسبز ہوتی ہے۔‘‘                                        

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 517 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 517 از مرزا قادیانی)

سلطنت برطانیہ کی تلوار

(8)        ’’ولو لاھیبۃ سیف سلہ عدل سلطنہ البرطانیہ لحث الناس علی سفک دمی۔‘‘ترجمہ: ’’اور اس تلوار کی ہیبت نہ ہوتی جو سلطنت برطانیہ نے سونت رکھی ہے تو لوگ میرا خون کر دیتے۔‘‘           (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 18 از مرزا قادیانی)

قادیانی تلوار

            ’’حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فرماتے ہیں کہ میں مہدی موعود ہوں اور گورنمنٹ برطانیہ میری تلوار ہے جس کے مقابلہ میں ان علما کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ پھر ہم احمدیوں کو کیوں خوشی نہ ہو۔ عراق، عرب ہو یا شام، ہم ہر جگہ اپنی تلوار (انگریز) کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

(قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کی تقریر، روزنامہ الفضل قادیان جلد 6 نمبر 42 صفحہ 9 مورخہ 7 دسمبر 1918ء)

میری اور میری جماعت کی جائے پناہ

(9)        ’’میں بیس برس تک یہی تعلیم اطاعت گورنمنٹ انگریزی کی دیتا رہا، اور اپنے مریدوں میں یہی ہدایتیں جاری کرتا رہا، تو کیونکر ممکن تھا کہ ان تمام ہدایتوں کے برخلاف کسی بغاوت کے منصوبے کی میں تعلیم کروں۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ امن مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے، نہ مدینہ میں، اور نہ سلطانِ روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔‘‘                               

(تریاق القلوب صفحہ28، مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ156 از مرزا قادیانی)

انگریز نے فتنہ قادیانیت کو ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھا ۔لندن میں کئی سو مربع زمین دے کر اسلام آباد کے نام سے شہر آباد کرنے کی اجازت دینا بلا شبہ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے قادیانی ٹولے کو زبر دست اہمیت حاصل ہونے کی وا ضح دلیل ہے ۔قادیانیوں کو پناہ دینا انگریز کی پرانی روایت ہے ۔ اس سلسلہ میں مرزا قادیانی کے بیٹے بشیر احمدکی تحریر ملاحظہ ہو !

گورہ پولیس کا پہرہ

(10)      ’’میاں معراج الدین صاحب عمرے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ۔۔۔۔۔۔۔ میں صرف ایک چھوٹی سی لطیف بات عرض کرتا ہوں جس کو بہت کم دوستوں نے دیکھا ہوگا۔

جب حضور لاہور ریلوے سٹیشن پر گاڑی میں پہنچے تو ۔۔۔۔۔۔۔ اس اثنا میں ایک شخص جن کا نام منشی احمد الدین صاحب ہے (جو گورنمنٹ کے پنشنر ہیں اور اب تک بفضلہ زندہ موجود ہیں اور ان کی عمر اس وقت دو تین سال کم ایک سو برس کی ہے لیکن قویٰ اب تک اچھے ہیں اور احمدی ہیں) آگے آئے جس کھڑکی میں حضور بیٹھے ہوئے تھے، وہاں گورہ پولیس کا پہرہ تھا اور ایک سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت کا افسر اس کھڑکی کے عین سامنے کھڑا نگرانی کر رہا تھا کہ اتنے میں جرات سے بڑھ کر منشی احمد الدین صاحب نے حضور سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ یہ دیکھ کر فوراً اس پولیس افسر نے اپنی تلوار کو الٹے رخ پر اس کی کلائی پر رکھ کر کہا کہ پیچھے ہٹ جائو۔ اس نے کہا کہ میں ان کا مرید ہوں اور مصافحہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس افسر نے جواب دیا کہ اس وقت ہم ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، ہم اس لیے ساتھ ہیں کہ بٹالہ سے جہلم اور جہلم سے بٹالہ تک بحفاظت تمام ان کو واپس پہنچا دیں۔ ہمیں کیا معلوم ہے کہ تم دوست ہویا دشمن۔ ممکن ہے کہ تم اس بھیس میں کوئی حملہ کر دو اور نقصان پہنچائو۔ پس یہاں سے فوراً چلے جائو۔‘‘  

  (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 288، 289 از مرزا بشیر احمد ایم اے)