Language:

مرزا کادیانی کا ابّا

آج ہم آپ کو ملت اسلامیہ کی خونچکاں تاریخ کے صفحات سے ایک چور باپ بیٹے کی کہانی سناتے ہیں۔ وہ دونوں ملت اسلامیہ کی عظمت و حرمت کے چور تھے۔ وہ قوم حجاز کی ملی غیرت کے لٹیرے تھے۔ ان کی تلواروں پر مظلوم مسلمانوں کا خون چمکتان تھا۔ وہ ملت بیضا کے غدار اور برطانوی گورنمنٹ کے وفادار تھے۔ وہ دونوں قوم مسلم کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مہکتے گلستانوں سے نکال کر صلیب کے منحوس جھنڈے تلے کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ باپ کا نام مرزا غلام مرتضیٰ اور بیٹے کا نام غلام احمد قادیانی تھا۔ جب کہ مرزا غلام مرتضیٰ کا دوسرا بیٹا اور مرزا غلام احمد قادیانی کا اکلوتا بڑا بھائی مرزا غلام قادر بھی ساری زندگی انہیں برے وھندوں میں مصروف رہا۔ مرزا غلام احمد قادیانی انگریزی نبی بنا اور مرزا غلام قادر آزادی کے سپاہیوں کے خلاف فرنگی کا بازوئے شمشیرزن تھا۔ مرزا قادیانی کا ”ابا” برائے مختصر معائنہ قادیانیوں کی کتابوں کی روشنی میں آپ کے سامنے حاضر ہے اور آپ بھی اپنی آنکھوں اور دماغوں کو حاضر کر لیجئے!
-01دربار فرنگی میں مرزا غلام مرتضیٰ کی عزت: ” میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے ‘ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا۔ جس کو دربارانگریزی میں کرسی ملتی تھی ۔ ”

(کتاب البریہ اشتہار ٢٠ ستمبر ١٨٩٧ء ص ،روحانی خزائن جلد 13 ص4 ازمرزا قادیانی )


-02 مامے دا راج: ” بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں مہتمم بندوبست تھا اور ان کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا۔ قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھااور محکمہ بندوسبت مذکور میں کام کرتا تھا۔ تایا صاحب مرزا غلام قادر کے ساتھ گستاخانہ، رنگ میں پیش آیا۔ تایا صاحب نے وہیں اس کی مرمت کردی۔ ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی تو اس نے تایا صاحب پر ایک سو روپیہ جرمانہ کیا۔ دادا صاحب اس وقت امر تسر میں تھے۔ ان کو اطلاع ہوئی تو فوراً ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی ۔ اس نے دادا صاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کردیا۔

(سیرت المہدی ص 229 حصہ اول مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)


پٹواری صاحب! آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ نے کتنے بڑے غدار کے بیٹے کے سامنے زبان کھولی۔ آپ کی خوب پٹائی ہوئی لیکن مجرم کو بلا طلب مسل معاف کردیا گیا۔
-03شوق حقہ نوشی: ” بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ دادا صاحب حقہ بہت پیتے تھے۔

( سیرت المہدی ص230 حصہ اول مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )

نمازیں کھاتے تھے اور حقہ پیتے تھے۔ کیا اعلیٰ شوق پائے تھے، فرنگی نبی کے ابا جان نے ! بیٹا فرنگی نبی ہو کر افیم کھاتا تھا اور پلومر کی شراب سے دل بہلاتا تھا اور باپ بناسپتی نبی کا باپ ہو کر حقے کی نے منہ میں دبا کر گڑ گڑ کی آوازیں نکال کر خوشی سے پھولانہ سماتا تھا۔ (ناقل)
-04تاکید نماز پر برہمی: ” بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا۔ دادا صاحب نے اس کی بڑی خاطر و مدارت کی۔ اس مولوی نے دادا صاحب سے کہا’ مرزا صاحب آپ نماز نہیں پڑھتے؟ دادا صاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میری غلطی ہے۔ مولوی صاحب نے پھر باربار اصرار کے ساتھ کہااور ہردفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے۔ آخر مولوی نے کہا آپ نمازنہیں پڑھتے۔ اللہ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ اس پر دادا صاحب کو جوش آگیا اور کہا ”تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا۔”( جہاں تیرے آقا انگریز کو ڈالے گا’ وہیں تجھے ڈالے گا :ناقل)

(سیرت المہدی ص 231حصہ اول مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )


-05محفل عیش و طرب: ” بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا اور ٢٢ طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے۔ ”

(سیرت لمہدی حصہ اول ص233 مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)


قارئین! مرزا غلام مرتضیٰ کے بیٹے اور مرزا قادیانی کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہورہی ہے … بزم و عیش و طرب آراستہ ہے …
رقا صاؤں کا حسن عریاں اپنی حشر سامانیاں دکھا رہا ہے … ٹھمکے لگ رہا ہے …… شریر جسموں کے زاوئیے بن اور ٹوٹ رہے ہیں… شہنائیاں بج رہی ہیں ……گھنگرؤوں کی جھنکار ہے … سرنگی کی کیں کیں ہے … باجوں پہ نغموں کی دھنیں ہیں … اور قادیانی نبوت کا خاندان بدمستی میں سردھن رہا ہے ۔
-06غدار کے بیٹے کی عزت: مرزا غلام مرتضیٰ مرتے وقت اپنے بیٹے مرزا غلام احمد کا ہاتھ اپنے آقا فرنگی کے ہاتھ میں دے گیا تھا اور فرنگی سے کہا تھا کہ میری اس سوغات کو سنبھال کر رکھنا۔ دیکھنے میں تو یہ پھٹا پرانا ہے’ لیکن چیز بڑے کام کی ہے۔ اپنے دعویٰ نبوت اور خاندانی غدار ہونے کے ناطے مرزا قادیانی کی فرنگی دربار میں کیا قدرو منزلت تھی۔ مندرجہ ذیل مثال اس پر خوب روشنی ڈال رہی ہے۔
” بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب مولوی محمد حسین بٹالوی قتل کے مقدمہ میں حضرت صاحب کے خلاف پیش ہواتو اس نے کمرے میں آکر دیکھا کہ حضرت صاحب(مرزا قادیانی) ڈگلس کے پاس عزت کے ساتھ کرسی پر تشریف رکھتے ہیں’ اس پر حسد نے اسے بے قرار کردیا۔ چنانچہ اس نے بھی حاکم سے کرسی مانگی اور چونکہ وہ کھڑا تھا اور اسکے اور حاکم کے درمیان پنکھا تھا’ جس کی وجہ سے وہ حاکم کے چہرہ کو دیکھ نہ سکتا تھا۔ اس لئے اس نے پنکھے کے نیچے سے جھک کر حاکم کو خطاب کیا۔ مگر ڈگلس نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی ایسی فہرست نہیں ہے۔ جس میں تمہارا نام کرسی نشینوں میں درج ہو۔ اس پر اس نے پھر اصرار کے ساتھ کہا۔ تو حاکم نے ناراض ہوکر کہا کہ بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہوجا۔”

(سیرت المہدی حصہ اول ص 248مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی ابن مرزا قادیانی )


-07انگریزوں کا نوکر: مرزا قادیانی اپنے باپ کی غداریوں پر گواہی دیتا ہوا کہتا ہے ” اور میرا باپ اس طرح خدمات میں مشغول رہا۔ ۔۔اور اگر ہم اس کی تمام خدمات لکھنا چاہیں تو اس جگہ سمانہ سکیں اور ہم لکھنے سے عاجز رہ جائیں ۔ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرا باپ سرکار انگریزی کے مراحم کا ہمیشہ امیدوار رہا اور عندالضرورت خدمات بجالاتا رہا۔ یہاں تک کہ سرکار انگریز نے اپنی خوشنودی کی چٹھیات سے اس کو معزز کیا اور ہر وقت اپنی عطاؤں کے ساتھ اس کو خاس فرمایا اور اس کی غم خواری فرمائی اور اس کی رعایت رکھی اور اس کو اپنے خیر خواہوں میں سے سمجھا۔

(نور الحق حصہ اول ص 28،مندرجہ روحانی خزائن ص 37 ، 38مرزا قادیانی)


-08١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا سپاہی: ” میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے ‘ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا۔ جس کو درباری انگریزی میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی ” تاریخ رئیسان پنجاب ” میں ہے اور ١٨٥٧ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ”

(کتاب البریہ اشتہار ٢٠ ستمبر ١٨٩٧ئ،روحانی خزائن جلد 13 ص4 ازمرزا قادیانی )


-09انگریزوں کا پرورش کردہ خاندان: مرزا غلا مرتضیٰ کا خاندان انگریزوں کا پالا پوسا خاندان تھا۔ جن کی ہر جائز و ناجائز ضرورت پورا کرنا اور ان کی ہر طرح سے حفاظت کرنا برطانوی گورنمنٹ کا فرض تھا۔ اس موضوع پر مرزا قادیانی کس فخر کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے۔
یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جسکو پچاس ٥٠برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جسکی نسبت گورنمنٹ عالیہ (برطانیہ) کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزارہیں۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھکر مجھے اور میری جماعت کوایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔”

( کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن ص 350جلد 13، از مرزا قادیانی)


-10مرزا کے ابے کی موت پر انگریزی حکومت کا تمغہ خدمت: ” مرزا قادیانی کے باپ کے جہنم رسید ہونے پر پنجاب کے فنانشل کمشنر نے مرزا قادیانی کے بڑے بھائی مرزا غلام احمد کے پاس ١٩ جون ١٨٧٦ء کو جو مراسلہ بھیجا اس میں تعزیتی کلمات کے بعد لکھا گیا مضمون پیش خدمت ہے۔
ترجمہ: ” مرزا غلا مرتضی سرکار انگریز کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا’ آپ کے خاندان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم آپ کی بھی اس طرح عزت کریں گے’ جس طرح تمہارے وفادار باپ کی کی جاتی تھی۔ ہم کو اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا ۔ ”

( کتاب البریہ المرقوم ٢٩ جنوری ١٨٧٦ئ روحانی خزائن جلد 13 ص6 ازمرزا قادیانی )


خوب عہد نبھارہے ہو۔ آج بھی اس کی نسل مرزا مسرور کو لندن میںسینے سے لگائے بیٹھے ہو ۔ دنیا کی یہ دواسلام دشمن قومیں اس عہد کو کیوں نہ نبھائیں’ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں’ دونوں کے مقاصد ایک ہیں اور دونوں کی منزل ایک ہے!