Language:

مرزا کادیانی کی ذہنیت

مرزاقادیانی کے ”ظر ف” میں اخلاق حسنہ کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ بلکہ وہ سرا سر اخلاقی کمزوریوں نکتہ چینیوں، بدگوئیوں بدکلامیوں سے لبریز تھا۔ اور یہاں تک اس نے اس فن دشنام دہی میں وہ ترقی کی تھی کہ اس کو دیکھ کر او ر سن کر بد اخلاقی و بد تمیزی بھی شرم و ندامت سے سرنگوں ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر مرزا قادیانی کو اس فن کا ”بے تاج بادشاہ” کہا جائے تو کچھ بے جا نہیں۔ بقول مرزا قادیانی
(1) ”ہر ایک برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہے۔” (چشمہ معرفت صفحہ 1 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ9 از مرزا قادیانی)
فواحش سے لبریز تحریریں ہر معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں شرم و حیا ختم ہو جاتا بلکہ عفت و عصمت اپنی اصل قدر و قیمت بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ انسانی جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے والی، آنجہانی مرزا قادیانی کی کتابیں فحش لٹریچر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کی تحریروں میں بے شرمی و بے حیائی کی باتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ذیل میں دی گئی تحریر مرزا قادیانی کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس کو پڑھنے کے بعد مرزا قادیانی کے بلند بانگ دعوے یعنی بنی ، ظلی ، بروزی ، محدث وغیرہ کی طرف تو ذہن سوچتا بھی نہیںمگر یہ سوچ آتی ہے کہ کہیں یہ شخص دیوث تو نہیںتھا ۔
واقعہ یہ ہے کہ گورہ فوج میں ایک گندا قانون ” قانون دکھائی ”کے نا م سے چلتا تھا ۔ یہ قانون ان فاحشہعورتوں کے لئے تھا جو انگریز فوج کے ساتھ رکھی جاتی تھیں ان کاکام انگریز سپاہیوں کی ناجائز خواہشات کی تکمیل تھا ۔ان عورتوں کا جانوروں کی طرح معائنہ کیا جاتا تھا کہ آیا یہ عورتیں جسمانی طور پر اس کام کے لیے صحت مند ہیں یا نہیں ۔اور کہیں ان سے انگریز سپاہیوں کی صحت پر اثر تو نہ ہو گا۔ یہ قانون ختم کیا گیا۔انگریز سپاہیوںکی صحت کا خطرہ پیدا ہوا ۔ مرزا قادیانی نے ایک ماہر دلال کی طرح تمام حالات کا جائزہ لیا اور انگریز گورنمنٹ کو اپنی ماہرانہ رپورٹ پیش کی ۔ تحریر ملاحظہ کیجئے
قانون دکھائی
(02) ”وزارت کے تبدیل ہوتے ہی ولایت کے نامور اور سربرآوردہ اخبار ٹائمز نے جس زور شور سے قانون دکھائی کو پھر جاری کرنے کے سلسلہ جنبانی کی ہے، وہ ناظرین پر ظاہر کی جا چکی ہے۔ کنسرویٹو وزارت سے جو سرکاری عہدہ داران کی رائے کو ہمیشہ بڑی وقعت سے دیکھتی ہے۔ امید ہو سکتی ہے کہ بالضرور وہ اس معاملہ پر اچھی طرح غور کرے گی کیونکہ اس قانون کی منسوخی کے وقت سرجارج وائٹ صاحب کمانڈر انچیف افواج ہند نے جو پر زور مخالفانہ رائے ظاہر کی تھی، وہ اس قابل ہے کہ ضرور کنسرویٹو گورنمنٹ اس پر توجہ کرے گورنمنٹ ہند بھی اس قانون کے منسوخ کرنے پر رضامند نہ تھی پس ان واقعات کی رو سے پورے طور پر خیال ہو سکتا ہے کہ قانون دکھائی پھر جاری کیا جاوے اس میں شک نہیں ہے کہ قانون دکھائی کے منسوخ ہونے کے دن سے گورہ سپاہیوں کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ برٹش کے بہادر سپاہی بازاروں میں آتشک کی مریض فاحشہ عورتوں کے ساتھ خراب ہوتے پھرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ حسب رائے کمانڈر انچیف صاحب بہادر بہت خوفناک نکلنے کی امید ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ سرکاری طور پر ہمیں اس بات کی خبر نہیں ملی کہ سال 1894ء میں کتنے گورے سپاہی مرض آتشک میں مبتلا ہوئے۔ گو مخالفان قانون دکھائی نے مہم چترال کی گورہ فوج کی صحت کو دیکھ کر نہایت مسرت ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ مویدان قانون دکھائی کی یہ رائے کہ اس قانون کے منسوخ ہونے سے تمام گورہ سپاہ مرض آتشک وغیرہ میں مبتلا ہو جائے گی، غلط ٹھہرتی ہے مگر یہ واقعہ اس قابل نہیں ہے کہ جس سے تشفی ہو سکے کیونکہ مہم چترال میں چیدہ اور تندرست جوان بھیجے گئے تھے نیز لڑائی اور جنگلی ملک کی وجہ سے وہ کہیں خراب ہو کر بیمار نہیں ہو سکتے تھے۔ اس امر کا دہرانا ضروری نہیں کہ گورے سپاہی چونکہ بالکل کم تعلیم یافتہ اور دیہاتی نوجوان ہیں۔ نیز بوجہ گوشت خور ہونے کے وہ زیادہ گرم مزاج کے ہیں۔ اس لیے ان سے نفسانی خواہش روکے رکھنے کی امید رکھنا محض لاحاصل ہے۔ قانون دکھائی کے جاری ہونے کے دنوں ہر ایک گورہ پلٹن کے لیے کسبی عورتیں ملازم رکھی جاتی تھیں جن کا ہمیشہ ڈاکٹری معائنہ ہوتا رہتا تھا اور تمام گورہ لوگوں کو ان ملازم رنڈیوں کے علاوہ اور جگہ جانے کی بھی شاید ممانعت تھی۔ اس طریق سے ان کی صحت میں کسی قسم کا خلل واقع نہیں ہوتا تھا نیز اس طریق کے بند ہونے کی وجہ سے اور بھی کئی ایسی وارداتیں ہوئی ہیں جن سے اہل ہند کی طرف سے بہت ناراضی پھیلتی جاتی ہے جن میں سے میاں میر کا مقدمہ زنا بالجبر جو گورہ سپاہیوں کی طرف سے ایک بدصورت بڈھی اور اندھی عورت سے کیا گیا تھا، قابل غور ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مدراس کے صوبہ میں ہوا جہاں ایک ریلوے پھاٹک کے چوکیدار نے ہندوستانی عورتوں کی عفت بچانے میں اپنی جان دے دی تھی۔ اگر چندے گورے سپاہیوں کے لیے انتظام سرکاری طور پر نہ کیا گیا تو علاوہ اس کے کہ تمام فوج بیماری سے ناکارہ ہو جائے ملک میں بڑی بھاری بددلی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور یہ دونوں امور قیام سلطنت کے لیے غیر مفید ہیں۔ اس وقت جبکہ قانون دکھائی کو پھر جاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہمیں یہ ظاہر کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ اگر اب پھر قانون مذکور جاری کیا جاوے تو گورنمنٹ ہند اور خصوصاً کمانڈر انچیف افواج ہند کو یہ بھی ضرور انتظام کرنا چاہیے کہ بجائے ہندوستانی عورتوں کے یورپین عورتیں ملازم رکھی جائیں کیونکہ قانون دکھائی کے متعلق ہندوستانی اور انگریز مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ہندوستان کی غریب عورتوں کو دلالہ عورتوں کے ذریعہ سے اس فحش ملازمت کی ترغیب دی جاتی ہے اور بعض اوقات نہایت کمینہ فریبوں سے اچھے گھروں کی یتیم لڑکیوں کو اس پیشہ کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ تھی جس سے ہند کے بہت سے باشندگان نے قانون دکھائی کی منسوخی میں معمول سے بڑھ کر انٹرسٹ لیا تھا۔ ورنہ کسی معمولی سمجھ کا آدمی کو بھی ان بدمعاش عورتوں سے ہرگز ہمدردی نہیں ہو سکتی تھی۔ قانون دکھائی کے مکرر اجرا کی کوشش محض اسی غرض سے کی جاتی ہے کہ گورہ سپاہیوں کی خواہش نفسانی کو پورا کرنے کے لیے سرکاری طور پر انتظام کیا جائے ورنہ دیسی لوگوں کی بہتری کلاس میں ذرا بھی خیال نہیں۔ اس لیے اگر مخالفین قانون مذکور کی دلجوئی گورنمنٹ کو منظور ہو تو یہی ایک طریق ہے جس سے بلاقانون مذکور کے جاری کرنے کے مقصد مطلوبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر حسب تجویز ہماری کے یورپین سپاہیوں کے لیے یورپین عورتیں بہم پہنچائی جائیں تو ان سے مرض آتشک کا خدشہ نہیں رہ سکتا کیونکہ ایک تو یورپ میں مرض مذکور شاید ہوگا ہی نہیں دوم ان عورتوں کو بروقت بھرتی ہونے کے دایہ ڈاکٹروں کے ذریعہ مثل فوجی سپاہیوں کے ملاحظہ کرایا جائے گا اس سے فریقین کے مرض مذکور سے پاک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹری معائنہ کی ہمیشہ کے لیے ضرورت ہی نہ رہے گی۔ اس طرح بغیر قانون دکھائی جاری کرنے کے سپاہیوں کی خواہش نفسانی کے لیے عمدہ طور سے انتظام ہو سکتا ہے۔
اس بات سے تو کوئی انکار ہی نہیں کر سکتا کہ ولایت میں مثل ہندوستان کے فاحشہ عورتیں موجود ہیں۔ اس لیے گورنمنٹ کو اس انتظام میں ذرا بھی وقت نہ ہوگی بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یورپ کی مہذب کسبیاں (واہ مرزا قادیانی! کسبیاں اور مہذب!۔مرتب) بہادر سپاہیوں کو خوش رکھنے کے لیے نہایت خوشی سے اپنی خدمات سپرد کر دیں گی رہی یہ بات کہ ان عورتوں کے ہندوستان لانے اور واپس لے جانے میں گورنمنٹ کو رقم کثیر خرچ کرنی پڑے گی۔ اس کا ہندوستان کے باشندوں کو ذرا بھی رنج نہ ہوگا جہاں وہ ملٹری ڈیپارٹمنٹ کے اخراجات کے لیے پہلے سے ہی لاتعداد روپیہ خوشی سے دیتے ہیں اس رقم کے اضافہ سے بھی ہرگز انھیں اختلاف نہ ہوگا بلکہ وہ اس تجویز کو جس سے ہندوستان کی بدبخت عورتوں کی عفت بچ رہے گی اور برٹش گورنمنٹ کے بہادر گورے سپاہی تندرست اور خوش رہ سکیں گے۔ نہایت خوشی سے پسند کریں گے۔
اگر گورنمنٹ ہند کو یہ مطلوب ہے کہ ہندوستان کے نوجوان بھی جن میں دیسی پلٹنوں اور رسالوں کے سپاہی بھی شامل ہیں بازاری عورتوں کے ذریعہ مریض ہونے سے بچ رہیں تو ہم تمام ہندوستان کی فاحشہ عورتوں کے لیے قانون دکھائی کے جاری ہونے کو صدق دل سے پسند کرتے ہیں۔ کسی شریف ہندوستانی کو ان بدکار فاحشہ عورتوں کے ساتھ جو تمام قسم کے لوگوں کے لیے باعث خرابی ہیں۔ ذرا بھی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہم قبل ازیں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسی عورتوں کے لیے جنھوں نے اپنے خاندان کے ناموس کو خیرباد کہہ دی ہے، قانون دکھائی کی آزمائش باعث شرم نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ عورتیں جو تھوڑے سے پیسوں میں بھنگی کے ساتھ منہ کالا کرنے کو تیارہیں۔ معزز ڈاکٹر کے معائنہ سے کب شرمسار ہو سکتی ہیں۔ بے شک یہ افسوسناک امر ہے کہ عورتوں کی عفت کا مردوں کے ذریعہ امتحان کرایا جائے مگر کیا ہو سکتا ہے ان بے شرم بدذات عورتوں کے لیے جنھوں نے دنیا کی شرم کو بالائے طاق رکھ دیا ہے حق بات تو یہ ہے کہ قانون دکھائی کی ہندوستان میں سخت ضرورت ہے۔ جب یہ قانون جاری تھا تو ہر ایک بدکار عورت کو خوف ہوتا تھا کہ اگر وہ فحش پیشہ اختیار کرے گی تو اسے قانون دکھائی کی سخت آزمائش بھی برداشت کرنی پڑے گی۔ بہت سی عورتیں اسی خوف کی وجہ سے اپنی زندگی خراب کرنے سے بچ رہتی تھیں۔ اس زمانہ میں جبکہ دکھائی کا طریق بند ہے۔ مرض آتشک کے ادویات کے اشتہارات کثرت سے شائع ہوتے ہیں جو اس امر کا کافی ثبوت ہیں کہ ملک میں مرض آتشک بہت پھیلا ہوا ہے اول تو ہمیں اس خراب فرقہ کے وجود سے ہی سخت اختلاف ہے مگر ایسے زمانہ میں جبکہ اخلاق اور مذہب کی سخت کمزوری ہو رہی ہے، یہ امید کرنا فضول ہے(کیامرزا قادیانی کی ان باتوں کو پڑھنے کے بعدبھی مرزائی اسے مسیح اور مہدی کہنے سے باز نہ آئیں گے؟ مرتب) کہ یہ شیطانی فرقہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان کے لیے کوئی ایسا قانون بنایا جائے جس سے یہ اخلاق اور مذہب کو بگاڑنے کے علاوہ عوام کی صحت کو ہمیشہ کے لیے خراب کرنے کے قابل نہ رہ سکیں اور وہ قانون صرف قانون دکھائی ہی ہے۔ ہم نہایت شکر گزار ہوں گے اگر دوبارہ ہند میں قانون دکھائی جاری کیا جائے گا مگر یہ شرط ضرور ساتھ ہے کہ گورہ لوگوں کے لیے یورپین رنڈیاں بہم پہنچائی جائیں۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ ہند اور معزز ہمعصران اس معاملہ پر ضرور توجہ اور غور فرمائیں گے۔”

(آریہ دھرم صفحہ 72 تا 75 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 72 تا 75 از مرزا قادیانی)


قارئین کرام !کیا یہ کسی مصلح ،کسی مہدی یا مسیح مو عود کے الفاظ لگتے ہیں ؟ یہ تو کسی شریف انسان کی بھی تحر یر نہیں لگتی ۔مرزا قادیانی کی اس عبارت کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ مرزا قا دیانی کس قماش کا آدمی تھا ۔ قادیانیوں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی گندی سوچ کے مالک انسان کو نعوذباﷲ پیغمبر کہہ رہے ہیں ۔
مگر ساتھ ساتھ یہ بات ہم مسلمانوں کے منہ پرطمانچہ بھی ہے ۔ ہم مسلمان ا پنی توہین پر سخت غصہ میں آجاتے ہیں ،ہماری اوقات کیا ہے ، ہمارا یہ چھ فٹ کا وجود حیثیت ہی کیا رکھتا ہے ۔ دنیا کی عظیم ترین ہستیاں جنھیںاﷲ رب العزت نے ا پنے پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا اصل عزت تو ان کی ہے، اصل مقام تو ان کا ہے اور امام الانبیاء میرے اور آپ کے آقا علیہ الصلوة والتسلیما ت کی شان سب سے اعلیٰ ہے ۔ اگر کوئی عزت ہمیں حاصل ہو تو سب ان کی جوتیوں کی خاک کی عزت کے برابر بھی نہیں ۔ مگر قادیانیوں کا بے شرم اور بے حیاء ٹولہ مرزا قادیانی جیسے گندہ ذہن آدمی کو کن مقدس ہستیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کیا یہ ان انبیاء کی توہین نہیں ۔ مسلمانو اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو پھر ہم غافل پڑے رہتے کوئی بات نہ تھی مگر آقاعلیہ الصلوة والتسلیمات کی آمد کے بعد اب کوئی نبی نہیں ۔اب اس امت کی ذمہ داری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عزت و ناموس کی حفاظت کریں ۔
ایسے گستاخ ٹولے کے بارے میں شریعت کا جو حکم ہے حکومت وقت پر لازم ہے کہ اس پر عمل درآمد کروائے ۔ جب تک حکومت ایسا نہیں کرتی عام عوام پر فرض ہے کہ مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا ناجائز اور حرام ہے ۔