• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • Qadianio-say-Bycot
  • >
  • قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر دیوبندی متکبہ فکر کا موقف حصہ دوم
Language:

قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر دیوبندی متکبہ فکر کا موقف حصہ دوم

اب چنداحادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوںجن سے قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کا حکم واضح ہوتا ہے  :

1۔          جامع ترمذی کی ایک حدیث میں سمرۃ  ؓ بن جندب سے مروی ہے کہ حکم دیا گیا ہے کہ: ’’مشرکوں اور کافروں کے ساتھ ایک جگہ سکونت بھی اختیار نہ کریں۔ ورنہ مسلمان بھی کافروں جیسے ہوں گے۔‘‘                 (باب فی کراہیہ المقام بین اظہر المشرکین ، جلد 1صفحہ194)

2۔          نیز ترمذی کی ایک حدیث میں جو جریربن عبداللہ الجلبی ؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’  أنابرئ من کل مسلم یقیم بین أظہر المشرکین۔‘‘ ترجمہ:یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اظہار برأت فرمایاہر اس مسلمان سے جو محارب کافروں میں سکونت پذیر ہو۔‘‘ (حوالہ مزکورہ بالا)

3۔          صحیح بخاری کی ایک حدیث میں قبیلہ عکل اور عرنیہ کے آٹھ نو اشخاص کا ذکر ہے جو مرتد ہوگئے تھے۔ ان کے گرفتار ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دئیے جائیں اور ان کی آنکھوں میں گرم کر کے لوہے کی کیلیں پھیر دی جائیں اور ان کو مدینہ طیبہ کے کالے کالے پتھروں پر ڈال دیا جائے۔ چنانچہ ایساہی کیا گیا۔ یہ لوگ پانی مانگتے تھے لیکن پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں:

’’یستسقون فلا یسقون‘‘اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:’’حتی ان احدھم یکدم بفیہ الارض‘‘

ترجمہ:   ’’وہ پیاس کے مارے زمین چاٹتے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر انہیں پانی دینے کی اجازت نہ تھی۔‘‘

امام نوویؒ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیںکہ:  ’’ان المحارب المرتد لا حرمۃ لہ فی سقی الماء ولا غیرہ، ویدل علیہ أن من لیس معہ ماء إلا لطہارتہ  لیس لہ أن یسقیہ للمرتد ویتیمم، بل یستعملہ ولومات المرتد عطشاً۔‘‘                                                              (فتح الباری 1، صفحہ393)

ترجمہ:   اس سے یہ معلوم ہوا کہ محارب مرتد کا پانی وغیرہ پلانے میں کوئی احترام نہیں۔ چنانچہ جس شخص کے پاس صرف وضو کے لئے پانی ہو تو اس کو اجازت نہیں ہے کہ پانی مرتد کو پلاکر تیمم کرے۔ بلکہ اس کے لئے حکم ہے کہ پانی مرتد کو نہ پلائے۔ اگرچہ وہ پیاس سے مرجائے بلکہ وضو کر کے نماز پڑھے۔‘‘

4۔          غزوئہ تبوک میں تین کبار صحابہ کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ، ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہ ،واقفی بدری رضی اﷲ عنہ اور مرارہ بن ربیع رضی اﷲ عنہ ، بدری عمری رضی اﷲ عنہ کو غزوہ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے سخت سزا دی گئی۔ آسمانی فیصلہ ہوا کہ ان تینوں سے تعلقات ختم کر لئے جائیں۔ ان سے مکمل مقاطعہ کیا جائے۔ کوئی شخص ان سے سلام و کلام نہ کرے۔ حتیٰ کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی ان سے علیحدہ ہوجائیں اور ان کے لئے کھانا بھی نہ پکائیں۔ یہ حضرات روتے روتے نڈھال ہوگئے اور حق تعالیٰ کی وسیع زمین ان پر تنگ ہوگئی۔ وحی قرآنی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:’’وعلی الثلٰثۃ الذین خلفوا ط حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنواان لا ملجأمن اللّٰہ الا الیہ۔(سورۃ توبۃ:آیت118) ترجمہ:’’اور ان تینوں پر بھی (توجہ فرمائی ) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیاگیا تھا۔ یہاں تک زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہوگئی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیاکہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ بجز ا سی کی طرف۔‘‘

پورے پچاس دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر کاراللہ تعالیٰ نے ان کی یہ توبہ قبول فرمائی اور معافی ہوگئی۔

قاضی ابوبکر بن العربی لکھتے ہیں کہ:’’وفیہ دلیل علی أنّ للإمام أن یعاقب المذنب بتحریم کلامہ علی الناس أدباًلہ وعلی تحریم أھلہ علیہ۔‘‘(احکام القرآن لا بن العربی جلد3 صفحہ114)ترجمہ:’’اس قصہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ امام کو حق حاصل ہے کہ کسی گنہگار کی تادیب کے لئے لوگوں کو اس سے بول چال کی ممانعت کر دے۔ اور ا س کی بیوی کو بھی اس کے لئے ممنوع ٹھہرا دے۔‘‘

حافظ ابن حجر ؒفتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:  ’’وفیہ ترک السلام علی من اذنب وجواز ھجرہ اکثر من ثلاث۔‘‘  ترجمہ:’’اس سے ثابت ہوا کہ گنہگار کو سلام نہ کیا جائے اور یہ کہ اس سے قطع تعلق تین روز سے زیادہ بھی جائز ہے۔‘‘

بہرحال کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ اور ان کے رفقاء کا یہ واقعہ قرآن کریم کی سورۃ توبہ میں مذکور ہے اور اس کی تفصیل صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور تمام صحاح ستہ میں موجود ہے۔

امام ابودائود نے اپنی کتاب سنن ابی دائود میں کتاب السنۃ کے عنوان کے تحت متعدد ابواب قائم کئے ہیں۔

الف۔       باب مجانبۃ اھل الاھواء وبغضھم! اھل اھواء باطل پرستوں سے کنارہ کشی کرنے اور بغض رکھنے کا بیان۔

ب۔         باب ترک السلام علی اھل الاھواء (اھل اھواء سے ترک سلام و کلام کا بیان)

سنن ابی دائود میں حدیث ہے کہ عمار رضی اﷲ عنہ بن یاسر نے ’’خلوق‘‘ (زعفران) لگایا تھا۔ آپ صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے ان کو سلام کا جواب نہیں دیا۔ غور فرمائیے کہ معمولی خلاف سنت بات پر جب یہ سزا دی گئی تو ایک مرتد موذی اور کافر محارب سے بات چیت سلام و کلام اور لین دین کی اجازت کب ہوسکتی ہے؟

امام خطابی ’’معالم السنن جلد 4صفحہ 296 میں حدیث کعب کے سلسلے میں تصریح فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے ساتھ بھی ترک تعلق اگر دین کی وجہ سے ہو تو بلا قید ایام کیا جاسکتا ہے۔ جب تک توبہ نہ کریں۔‘‘

 ً5۔      مسند احمد و سنن ابی دائود میں ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’القدریۃ مجوس ہذہ الامۃ، ان مرضوا فلا تعودوھم ، وان ماتوا فلا تشھدوھم۔‘‘

ترجمہ:   ’’تقدیر کا انکار کرنے والے اس امت کے مجوسی ہیں۔ اگر بیمار ہوں تو عیادت نہ کرو اور اگرمرجائیں تو جنازہ پرنہ جائو۔‘‘

6۔          ایک اور حدیث میں ہے کہ:   ’’لا تجالسوا اھل القدر ولا تفاتحوھم‘‘    ترجمہ:   ’’منکرین تقدیر کے ساتھ نہ نشست و برخاست رکھو اور نہ ان سے گفتگو کرو۔‘‘

بہرحال یہ تو حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں۔ عہد نبوت کے بعد عہد خلافت راشدہ میں بھی اسی طرز عمل کا ثبوت ملتا ہے۔ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا اعلان جہاد کرنابخاری و مسلم میں موجود ہے۔ مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی، طلیحہ اسدی اور ان کے پیروئوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے حدیث و سیر کا معمولی طالب علم بھی واقف ہے۔ عہد فاروقی میں ایک شخص ضبیع عراقی قرآن کریم کی آیات کے ایسے معانی بیان کرنے لگا جن میں ھواء نفس کو دخل تھا اور ان سے مسلمانوں کے عقائد میں تشکیک کا راستہ کھلتا تھا۔ یہ شخص فوج میں تھا جب عراق سے مصر گیا اورحضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ گورنر مصر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس کو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے پاس مدینہ بھیجا اور صورت حال لکھی۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے نہ اس کا موقف سنا نہ دلائل۔ اس سے بحث و مباحثہ میں وقت ضائع کئے بغیر اس کا ’’علاج بالجرید‘‘ ضروری سمجھا۔ فوراً کھجور کی تازہ ترین شاخیں منگوائیں اور اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر بے تحاشا ہ مارنے لگے اتنا مارا کہ خون بہنے لگا۔ وہ چیخ اٹھا کہ ’’اے امیر المومنین آپ مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہیں تو مہربانی کیجئے۔ تلوار لے کر میرا قصہ پاک کردیجئے اور اگر صرف میرے دماغ کا خناس نکالنا مقصود ہے تو آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب وہ بھوت نکل چکا ہے۔‘‘ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسے چھوڑ دیا اور چند دن مدینہ رکھ کر واپس عراق بھیج دیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کو لکھا کہ:’’ان لا یجالسہ احد من المسلمین‘‘      ترجمہ:   ’’کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔‘‘

اس مقاطعہ سے اس شخص پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو لکھا کہ اس کی حالت ٹھیک ہوگئی ہے۔ تب حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی۔

7۔          سنن کبری البہیقی جلد9صفحہ85میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’امرنی رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم ان أغور ماء آبار بدر‘‘          ترجمہ:   ’’جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ بدر کے کنوئوں کا پانی خشک کردوں۔‘‘  اور ایک روایت میں ہے کہ ’’   أن تغوّر المیاہ کلھا غیر ماء واحد فنلقی القوم علیہ‘‘ ترجمہ: ’’سوائے ایک کنوئیں کے جو بوقت جنگ ہمارے کام آئے گا باقی سب کنوئیں خشک کردئیے جائیں۔‘‘

8۔          صحیح بخاری جلد2 صفحہ1023میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس چند بددین زندیق لائے گئے تو آپ نے انہیں آگ میں جلا دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کو اس کی اطلاع پہنچی تو فرمایا۔’’اگر میں ہوتا تو انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی سزا مت دو بلکہ میں انہیں قتل کرتا ۔‘‘ کیونکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:       ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘       ترجمہ:   ’’جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔‘‘

9۔          صحیح بخاری، جلد1صفحہ423 میں صعب بن جثامہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ : ’’رات کی تاریکی میں مشرکین پر حملہ ہوتا ہے تو عورتیں اور بچے بھی زد میں آجاتے ہیں فرمایا وہ بھی انہی میں شامل ہیں۔‘‘                                                           (جاری ہے)