Language:

حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام اور احادیث مبارکہ حصہ چہارم

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لیے جو کچھ ارشاد فرمایا، اگر احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم موجود نہ ہوں تو ہمارے پاس قرآن مجید کے معانی، شریعت کے مطابق متعین کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں رہے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے قرآن نازل فرمایا اور اس کی تشریح و تفسیر حضور سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کر دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم و لعلھم یتفکرون۔(النحل:44)  ترجمہ: ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل فرمایا تاکہ آپؐ (اسے) کھول کر لوگوں کو بیان کریں کہ ان کی طرف کیا احکام نازل کیے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔

اسلام میں حدیث کی آئینی و دستوری حیثیت اور حجیت کے بارے حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمکا فکر انگیز ارشاد ملاحظہ کیجیے:

q          عن العرباضؓ بن ساریہ قال قام رسول اللّٰہ فقال الحسیب احدکم متکناً علیٰ اریکتہ یظن ان اللّٰہ لم یحرم شیئاً الا ما فی ھذا القرآن، الا و انی واللّٰہ قد امرت و وعظت و نہیست عن اشیاء انھما کمثل القرآن اواکثرھم۔

(مشکوٰۃ، ابی داؤد)

حضرت عرباضؓ بن ساریہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے خطبہ میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا: کیا گمان کرتا ہے، تم میں سے ایک شخص، اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے ہوئے، کہ اللہ نے اور کوئی چیز حرام ہی نہیں کی، بجز ان چیزوں کے جو قرآن میں حرام کی گئی ہیں؟ آگاہ رہو، کہ قسم خدا کی کہ میں نے حکم دیے ہیں اور میں نے نصیحتیں کی ہیں اور میں نے روکا ہے، بہت سی چیزوں سے کہ وہ قرآن ہی کی طرح ہیں، بلکہ اس سے بھی زائد۔

سچے اللہ کے مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمکی یہ پیشگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہو رہی ہے۔ آج بنگلوںمیں رہنے والے اور فراغت و خوشحالی و عیش و نشاط سے زندگی گزارنے والے لوگ منکرین حدیث قادیانی، پردیزی وغیرہ حدیث کی حجیت کا انکار کرتے ہیں اور صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں۔

شیخ المفسرین حضرت علامہ حافظ ابن کثیرؒ تحریر فرماتے ہیں:’’حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کئی احادیث تواتر کے ساتھ منقول ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے خبر دی کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہوں گے۔‘‘

                                                                                                                                (تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 132)

معلوم ہوا کہ نزول مسیح کی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں علامہ خالد محمود لکھتے ہیں:’’آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم  سے جو حدیثیں تواتر کے ساتھ منقول ہیں، ان کی تکذیب بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ سو حدیث متواتر سے ثابت ہونے والے جملہ امور پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کر دیا جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا۔‘‘

                                                                                                                                    (آثار الحدیث جلد 2 صفحہ 128)

تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قربِ قیامت زمین پر نازل ہوں گے، جیسا کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم  سے 30 سے زائد صحابہ کرامؓ روایت کر رہے ہیں۔ احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور اس کے بعد ان کے کارناموں اور ذمہ داریوں نشانیاں بڑے واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہیں۔ 70 سے زائد ان احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں چند احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہے:

چھٹی حدیث

(6)        عبد اللّٰہ بن عمرو قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینزل عیسی ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسٰی ابن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر۔ (مشکوٰۃ صفحہ 480 باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام)

(ترجمہ) ’’حضرت عبداللہ بن عمرو، رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلمنے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم، زمین کی طرف نازل ہوں گے۔ پس نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور پینتالیس برس تک رہیں گے، پھر فوت ہوں گے اور میرے پاس میرے مقبرہ میں دفن ہوں گے۔ پھر میں اور عیسیٰ ابن مریم ایک ہی مقبرہ سے اٹھیں گے، ابوبکرؓ و عمرؓ کے درمیان۔‘‘

یہ حدیث امام ابن جوزی نے بیان کی ہے جو قادیانیوں کے نزدیک چھٹی صدی میں تجدید دین کے لیے مبعوث ہوئے تھے اوران کے منکر کا کافر اور فاسق ہونا قادیانیوں کے نزدیک مسلّم ہے۔ (دیکھیے شہادۃ القرآن صفحہ408مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 344) پھر اس حدیث کی صحت کو خود مرزا قادیانی اور اس کی جماعت نے اپنی مندرجہ ذیل کتابوں میں بڑے زور سے صحیح تسلیم کیا ہے۔ (ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 53مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337، کشتی نوح صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16، نزول المسیح صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 381، حقیقۃ الوحی صفحہ 307 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 320۔ ضمیمہ حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ 51مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 674۔ عسل مصفٰی جلد 2 صفحہ 441۔440) مرزا قادیانی کے علاوہ خود مرزا بشیر الدین محمود نے بھی اس حدیث کی صحت کو اپنی کتاب ’’انوارِ خلافت‘‘ کے صفحہ 50 (مندرجہ انوار العلوم جلد 2 صفحہ 114، از مرزا بشیر الدین محمود) پر قبول کیا ہے۔

قارئینِ محترم! قادیانی کتب سے جب ثابت ہو چکا کہ یہ حدیث، رسولِ کریمصلی اللہ علیہ وسلمکے مبارک الفاظ ہیں تو اب جو قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ جسمانی کا انکار کرے، کیا وہ مسلمان ہو سکتا ہے؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس حدیث شریف میں نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کا نام عیسیٰ نہیں بلکہ عیسیٰ بن مریم فرمایا۔ پھر ان کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا فرمایا۔ پھر نزول کے بعد اُن کی شادی کا ہونا فرمایا۔ پھر فوت ہونا اور مدینہ منورہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلمکے قریب دفن ہونا فرمایا۔ ان نشانیوں میں سے ایک بھی نشانی مرزا قادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ کیا قادیانی غیر جانبدار ہو کر ان نکات پرغور کریں گے؟

ساتویں حدیث

(7)        عن عائشۃ قالت قلت یارسول اللّٰہ انی اری انی اعیش بعدک فتاذن لی ان ادفن الی جنبک! فقال: وانی لک بذلک اموضع! مافیہ الا موضع قبری وقبرابی بکرو عمرو عیسٰی ابن مریم۔                                                       (کنزالعمال جلد 14 صفحہ 620، حدیث نمبر 39728)

(ترجمہ) ’’حضرت امی عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم(میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں) بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلمکے بعد زندہ رہوں گی۔ کیا آپ مجھے اپنے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کیونکہ وہاں تو صرف میری (آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم) ابوبکرؓ، عمر فاروق  ؓ اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی قبور کی جگہ ہے۔‘‘

قارئین کرام! جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بیوی اور اولاد کا نہ ہونا ثابت ہے، اسی طرح کرہ ارضی پر ان کی قبر بھی نہیں ہے بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ کے ارشاد کے مطابق آپصلی اﷲ علیہ وسلم  کے روضہ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے قبر کی جگہ خالی پڑی ہے۔ اگر وہ فوت ہو گئے ہوتے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پہلو میں ان کے دفن کے لیے جگہ نہ چھڑوا جاتے۔ پس ثابت ہوا کہ ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں قادیانیوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مرزا قادیانی سچا مسیح تھا تو اسے مدینہ منورہ میں حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمکے قریب دفن ہونا چاہیے تھا۔ خود مرزا قادیانی کی ایک پیش گوئی ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اے مرزا، تو مکہ میں مرے گا یا مدینہ میں۔ (تذکرہ مجموعہ الہامات و وحی مقدس صفحہ 503 طبع چہارم از مرزا قادیانی) لیکن سب جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی برانڈرتھ روڈ لاہور پر واقع احمدیہ بلڈنگ کی لیٹرین میں عبرتناک موت کا شکار ہوا اور ریل گاڑی (بقول مرزا قادیانی، دجال کی سواری) پر اس کی نعش قادیان لے جائی گئی جہاں وہ دفن ہوا۔

آٹھویں حدیث

(8)        عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لن تھلک امۃ انا فی اولھا و عیسٰی بن مریم فی آخرھا والمھدی فی وسطھا۔

(کنزالعمال جلد 14 صفحہ 266 حدیث 38671)

(ترجمہ)حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور خاتم النبیینصلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’وہ امت کبھی ہلاک نہیں ہوگی جس کے اوّل میں مَیں ہوں اور آخر میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور درمیان میں مہدی علیہ الرضوان۔‘‘

(نوٹ) علامہ جلال الدین سیوطیؒ قادیانیوں کے نزدیک مجدد ہیں۔ یہ ان کی بیان کردہ روایت ہے۔اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امت محمدیہؐ میں آئیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں۔

نویں حدیث

(9)        عن عبد اللّٰہ ابن مسعود عن النبیصلی اﷲ علیہ وسلم  قال لقیت لیلۃ أسریٰ بی ابراھیم و موسی و عیسیٰ قال فذاکروا أمر الساعۃ فردوا أمرھم الی ابراھیم فقال لا علم لی بہا فردوا الامر الی موسی فقال لا علم لی بہا فردوا الامر الی عیسی فقال اما وجبتہا فلا یعلما أحد الا اللّٰہ ذلک و فیما عھد الی ربی عز وجل ان الدجال خارج قال ومعی قضیان فاذار آنی ذاب کمایذوب الرصاص قال فیہلکہ اللّٰہ حتی ان الحجر و الشجر لیقول یا مسلم ان تحتی کافر افتعال فاقتلہ قال فیہلکھم اللّٰہ۔  (مسند احمد، جلد اوّل ابن ماجہ صفحہ 366)

(ترجمہ) ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ میں نے شب معراج میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی تو وہ قیامت کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ پس انھوں نے اس معاملہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے رجوع کیا (کہ وہ وقتِ قیامت کے بارے میں کچھ بتائیں) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے فرمایا جہاں تک وقتِ قیامت کا معاملہ ہے تو اس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ یہ بات تو اتنی ہی ہے۔ البتہ جو عہد، پروردگار نے مجھ سے کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ دجال نکلے گا اور میرے پاس دو باریک سی نرم تلواریں ہوں گی۔ پس وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ (یا سیسہ) کی طرح پگھلنے لگے گا پس اللہ اس کو ہلاک کرے گا۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی کہیں گے کہ اے مرد مسلم میرے نیچے کافر چھپا ہوا ہے، آ کر اسے قتل کر دے۔ چنانچہ اللہ ان سب (کافروں) کو ہلاک کر دے گا۔‘‘

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں قادیانیوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اس حدیث شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے۔ کیا مرزا قادیانی کے دور میں وہ باتیں پوری ہوئیں؟