Language:

غازی عامر عبدالرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ

            30 ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے اخبار جیلنز پوسٹن نے حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں 12 نہایت توہین آمیز اور نازیبا کارٹون شائع کیے۔ پھر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت جنوری 2006ء میں 22 ممالک کے 75 اخبارات و رسائل نے ان کارٹونوں کو دوبارہ شائع کیا۔ ان کارٹونوں کی اشاعت سے مشتعل ہو کر جرمنی میں مقیم ایک پاکستانی طالب علم عامر عبدالرحمن چیمہ نے متعلقہ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ نہایت عبرتناک حالت میں جہنم واصل ہو گیا۔ عامر عبدالرحمن چیمہ گرفتار ہوئے۔ جرمن پولیس اور مختلف حکومتی ایجنسیوں نے برلن جیل میں 44 دن تک عامر چیمہ کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر تشدد کیا۔

ایک موقع پر تفتیشی افسر نے عامر چیمہ کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کرے کہ وہ ذہنی مریض ہے، دماغی طور پر تندرست نہیں ہے اور اس نے یہ قدم محض جذبات میں آ کر اٹھایا ہے۔ مزید براں یہ کہ اس فعل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور میں اپنے کیے پر بے حد شرمندہ اور نادم ہوں۔ شہید عامر چیمہ نے نہایت تحمل سے تفتیشی آفیسر کی تمام باتیں سنیں اور پھر اچانک شیر کی طرح دھاڑا اور اس آفیسر کے منہ پر تھوک دیا اور روتے ہوئے کہا ’’میں نے جو کچھ کیا ہے، وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر کے فیصلے کے مطابق کیا ہے۔ مجھے اپنے فعل پر بے حد فخر ہے۔ یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ایک تو کیا، ہزاروں جانیں بھی قربان۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اگر کسی بدبخت نے میرے آقا رسولِ کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی توہین کی تو میں اسے بھی کیفر کردار تک پہنچائوں گا۔ بحیثیت مسلمان یہ میرا فرض ہے اور میں اس فریضہ کی ادائیگی کرتا رہوں گا۔‘‘ عامر چیمہ کی اس بے باک اور بے خوف جسارت کے بعد جیل حکام آپے سے باہر ہو گئے اور انھوں نے عامر چیمہ پر بہیمانہ تشدد کی انتہا کر دی، اس کے پیچھے سے ہاتھ باندھے گئے۔ پلاس کے ساتھ اس کے ناخن کھینچے گئے۔ پائوں کے تلوئوں پر بید مارے گئے، گرم استری سے اس کا جسم داغا گیا، جسم کے نازک حصوں پر بے تحاشا ٹھڈے مارے گئے، ڈرل مشین کے ذریعے اس کے گھٹنوں میں سوراخ کیے گئے۔ عامر چیمہ نہایت اذیت کی حالت میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتا رہا۔ اسی دوران میں اس کی سانسیں اکھڑ گئیں اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر ان بدبختوں نے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔

مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا                                  صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ

عامر چیمہ کی شہادت 3 مئی 2006ء کو ہوئی۔ شہید کا جسد خاکی 10 دن کی تاخیر کے بعد 13 مئی 2006ء کو صبح 9 بجے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے لاہور لایا گیا۔ بعدازاں شہید کے آبائی گائوں ساروکی (وزیرآباد) میں تدفین ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق جنازے میں 5 لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے۔

عامر عبدالرحمن چیمہ کے استادِ محترم جناب محمد یحییٰ علوی صاحب جو کہ گورنمنٹ جامعہ سکول فار بوائز راولپنڈی میں استاد ہیں اور اسلامیات، عربی کی تدریس کرچکے ہیں، فرماتے ہیں: ’’الحمدللہ میرا معمول ہے کہ ہر شبِ جمعہ کو کم از کم 500 مرتبہ درود شریف پڑھ کر سوتا ہوں۔ 4 مئی کو نمازِ عشا ادا کرنے کے بعد جب میں مسجد سے نکلا تو ایک دوست نے بتایا کہ پروفیسر نذیر چیمہ صاحب کا بیٹا عامر جو گستاخ رسول پر حملے کے جرم میں جرمنی میں گرفتار تھا، شہید کر دیا گیا۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت صدمہ ہوا اور عامر کی یادیں دل میں بسائے سو گیا۔ صبح سے کچھ دیر قبل میں نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑے میدان میں بہت زیادہ قمقمے جگمگا رہے ہیں۔ اور ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے۔ اس دوران میں مَیں نے دیکھا کہ اس روشن میدان میں ایک بلند سٹیج سجا ہوا ہے اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں۔ آپ کے رخِ زیبا سے نور ہی نور پھوٹ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خلفائے راشدینؓ بھی موجود ہیں۔ اسی اثناء میں میدان کی دوسری طرف سے سفید لباس میں ملبوس عامر شہید آتے ہیں اور تیز قدموں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھتے ہیں۔ آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم عامر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوشی اور مسرت سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آغوش مبارک وا کرکے عامر کو پکارتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’مرحبا! اے میرے بیٹے۔ پھر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) یہ دیکھو کون آیا ہے۔ میں عامر کو تمہارے سپرد کر رہا ہوں، تم اس کا خیال رکھنا۔‘‘

بس اسی لمحے قریبی مسجد سے اذانِ فجر بلند ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی۔‘‘

؎   عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

اے کاش! ہر مسلمان گھرانے سے ایک ایک عامر اٹھے جو دنیا کو یہ بتا دے کہ ہم اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے زندہ ہیں اور جب تک ہمارے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے، ہم اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا تحفظ کرتے رہیں گے، اے مسلم نوجوان!

ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے ان دنوں  مہر و وفا کے نام پہ گردن کٹائے جا

آئے گی موت واقعتہً ایک دن ضرور   پھر موت کیا ہے کچھ نہیں غیرت دکھائے جا