Language:

مولانا گلزار احمد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا گلزار احمد مظاہریؒ ملک کے نامور عالم دین، واعظ خوش بیان، اتحاد امت کے نقیب، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما، تحریک ختم نبوت کے جری و دبنگ مبلغ اور بے باک رہنما تھے۔ مولانا مظاہریؒ زندگی بھر دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ہزاروں جلسوں، ریلیوں، سیرت النبی اور ختم نبوت کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ مشرقی و مغربی پاکستان کا کوئی قابل ذکر شہر، قصبہ، دیہات اور گوٹھ ایسا نہیں کہ جہاں مولانا مظاہری توحید و رسالت کی دعوت اور عقیدہ ختم نبوت کا پیغام لے کر نہ پہنچے ہوں۔

چونکہ جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نور الدین کا تعلق بھیرہ سے تھا، اس لیے بھیرہ کی پراچہ برادری کے کچھ خاندان مرتد ہو کر قادیانی ہو گئے تھے بلکہ یوں بھی تھا کہ باپ قادیانی اور بیٹا مسلمان یا باپ مسلمان اور بیٹا قادیانی۔ اسی طرح مختلف خاندانوں میں باہمی شادیوں کے نتیجہ میں مسلمان خواتین غیر مسلموں کے عقد نکاح میں تھیں اور اسے کوئی برائی بھی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ مولانا گلزار احمد مظاہریؒ جب مظاہر العلوم سے عالم دین بن کر بھیرہ واپس آئے تو انھوں نے اپنے محلہ کی بڑی جامع مسجد میں پہلے ہی خطبہ جمعہ میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ قادیانی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کی نماز جنازہ پڑھنا، انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا اور ان کے ساتھ رشتہ داریاں قائم کرنا ناجائز، خلاف اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلآزاری اور تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ مولانا مظاہریؒ کے اس اظہار حق سے قادیانیوں کے ہاں صف ماتم بچھ گئی۔ انھوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ چونکہ ان میں سے بعض گھرانے بااثر بھی تھے اور متمول بھی۔ اس لیے انھوں نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ لیکن الحمد للہ، مولانا مظاہریؒ کے اعلان حق نے پوری پراچہ برادری میں ہی نہیں، پورے شہر میں ایک نیا جذبہ اور نئی بیداری پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں کچھ ہی عرصہ بعد قادیانی اچھوت بن گئے۔ سگے بیٹوں نے اپنے قادیانی باپ کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ قادیانیوں کے سماجی بائیکاٹ کا یہ سب سے پہلا بڑا اور منظم مظاہرہ تھا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر مولانا مظاہری جماعت اسلامی ضلع میانوالی کے امیر تھے۔ اس مرحلہ پر تحفظ ختم نبوت کا علم لے کر انھوں نے ملک بھر کا طوفانی دورہ کیا۔ کراچی سے خیبر تک، شہر شہر، قریہ قریہ ختم نبوت کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ ان کے پرُجوش خطاب نے ملک بھر میں اہل ایمان کے دلوں میں عشق مصطفیٰصلی اللہ علیہ وسلم کی آگ لگا دی جس سے گھبرا کر حکمرانوں نے انھیں کراچی کے ایک جلسہ عام کے بعد گرفتار کر لیا۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں انھیں نظر بند کر دیا گیا۔ شاہی قلعہ کے صعوبت خانے میں ان پر تشدد بھی ہوا لیکن ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی بلکہ…بڑھتا ہے ذوق جرم یہاں ہر سزا کے بعد … کے مصداق قید و بند نے ان کے جوش و خروش اور عزم و ولولہ کو مزید بلند و بالا کر دیا۔

مولانا مظاہریؒ نے 1974ء کی تحریک ختم نبوت سے دو سال پہلے ہی قادیانیوں کے خلاف منبر و محراب اور قرطاس و قلم کے ذریعے بھرپور مہم کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس موقع پر قادیانیت اور ان کے عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے مختلف عنوانات پر انتہائی مدلل اور پُراثر کتابچے تحریر کیے اور انھیں ہزاروں کی تعداد میں شائع کر کے ملک بھر میں پھیلایا۔

مولانا مظاہریؒ نے قادیانیوں کے عزائم سے ملت اسلامیہ کو آگاہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا مطالبہ پوری شدت سے اٹھایا۔ اسی سلسلہ میں انھوں نے رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد پیش کی اور الحمدللہ کہ مولانا مظاہریؒ کی کوشش سے رابطہ عالم اسلامی نے 1972ء میں قادیانیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔

چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر قادیانیوں کے وحشیانہ تشدد کے بعد پورے ملک میں تحریک ختم نبوت پوری شدت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ مولانا کے صاحبزادے فرید احمد پراچہ اس وقت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ انھوں نے پورے ملک کے طلبہ کو متحرک کیا اور پنجاب بھر کے طوفانی دورے کیے۔ اس دوران اکابر علمائے کرام کی طرف سے مولانا مظاہریؒ کو جو ان دنوں برطانیہ کے دورے پر تھے، فوراً واپس پہنچنے کا حکم ملا۔ عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ مولانا کی لازوال محبت کا یہ بین ثبوت ہے کہ اگرچہ وہ برطانیہ میں بھی یہی مشن لے کر گئے تھے، لیکن جب انھیں اکابر علمائے کرام کی طرف سے وطن واپسی کا حکم ملا تو بلاتاخیر پہلی فلائٹ سے پاکستان واپس پہنچے اور پھر پورے ملک کا مسلسل دورہ کر کے ہزاروں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں میں عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس  رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن کی۔ یہ بھی مولانا مظاہری کے عقیدہ ختم نبوت پر لازوال یقین اور حضور رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم سے غیر متزلزل محبت کی دلیل ہے کہ جب ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عابدہ نسیم کے لیے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں کے وحشیانہ تشدد کے باوجود تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کرنے والے نشتر میڈیکل کالج ملتان کی طلبہ یونین کے صدر ڈاکٹر ارباب عالم خان کے رشتہ کی تجویز پہنچی تو مولانا نے اپنے خاندان میں موجود مختلف رشتوں کے باوجود یہ کہہ کر بلا تامل ہاں کر دی کہ ارباب عالم کا سب سے بڑا اعزاز غلامیِٔ رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس سے بڑا اعزاز اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔